پی ٹی آئی کے کیس کو 'فارن فنڈنگ' کی بجائے 'ممنوعہ فنڈنگ' لکھا جائے، الیکشن کمیشن کی ہدایات

پی ٹی آئی کے کیس کو 'فارن فنڈنگ' کی بجائے 'ممنوعہ فنڈنگ' لکھا جائے، الیکشن کمیشن کی ہدایات
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ہوئی۔

پی ٹی آئی وکیل انور منصور کمیشن کے سامنے پیش دلائل دیے۔ انور منصور خان نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ دستاویزات میں ابھی تک ممنوعہ فنڈنگ کی بجائے فارن فنڈنگ لکھا گیا ہے جس کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے سٹاف کو فارن فنڈنگ کی بجائے ممنوعہ فنڈنگ لکھنے کی ہدایات کردی۔

انور منصور خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس پر الیکشن ایکٹ نہیں بلکہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 لاگو ہوگا، پی پی او کے تحت فارن فنڈنگ میں غیرملکی حکومت، ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں آتی ہیں،الیکشن ایکٹ 2017 میں پاکستانی شہریوں کے علاوہ کسی سے بھی فنڈز لینے پر ممانعت ہے۔

انور منصور خان نے کمیشن کو بتایا کہ سال 2017 تک کے تمام کیسز پر 2002 کے قانون کا ہی اطلاق ہوگا، بھارت میں بیرون ملک رہائش پذیر شہری بھی سیاسی پارٹی کو چندا نہیں دے سکتے، بھارت میں دوہری شہریت کی اجازت نہیں جبکہ پاکستان میں قانون موجود ہے۔

وکیل اکبر ایس بابر نے کہا فارن فنڈڈ پارٹی کے حوالے سے بھی قانون واضح ہے، فارن فنڈڈ جماعت کیخلاف الیکشن کمیشن نہیں وفاقی حکومت کارروائی کر سکتی ہے۔

انور منصور خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سکروٹنی کمیٹی کو تمام تفصیلات اور موقف سے آگاہ کیا تھا، سکروٹنی کمیٹی صرف قانون میں درج طریقہ کار کے مطابق پڑتال کر سکتی ہے،سکروٹنی کمیٹی نے قرار دیا جو ہمارے معیار پر پورا اترتا ہے اس کو ہی قبول کرینگے۔ ہم نے وہ پیسے وصول کیے جو قانون کے مطابق آئے، جو پیسے خلاف قانون آئے ان کو واپس کیا۔

الیکشن کمیشن نے انور منصور سے استفسار کیا آپ کے پاس پیسے واپس کرنے کے دستاویزی شواہد ہیں، جی بالکل میں دستاویزات پیش کر لوں گا۔

انور منصور خان نے بتایا کہ گارنٹی کیساتھ کہہ سکتا ہوں کسی بھی پارٹی کی اکاؤنٹنٹ اس لیول کی نہیں، پاکستان کا قانون موجود ہے لیکن سکروٹنی کمیٹی نے باہر سے دستاویزات اٹھائیں۔ سکروٹنی کمیٹی نے کہا انڈیا کے قانون کے مطابق ہم آگے چلیں گے، انڈیا کا قانون ہمارے قانون سے مختلف ہے۔

سکروٹنی کمیٹی نے لکھا کہ ہمارے ثبوت کافی نہیں، سکروٹنی کمیٹی نے میری اور اکبر ایس بابر کی انفارمیشن مسترد کردی، سکروٹنی کمیٹی نے فارا سے لسٹ ڈاؤنلوڈ کی، سکروٹنی کمیٹی نے کہا آپ کی لسٹ قابل اعتماد نہیں ہماری لسٹ ٹھیک ہے۔

انور منصور خان نے کہا کہ سکروٹنی کمیٹی نے آڈٹڈ اکاؤنٹس کو کہیں مسترد اور کہیں مانا ہے، میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ سکروٹنی کمیٹی رپورٹ میں تضادات ہیں، پی ٹی آئی اکاؤنٹس کے سامنے پیش کردیے ہیں سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو مسترد کیا جائے،سکروٹنی کمیٹی میں لگائے گئے الزامات کو خارج کیا جائے۔

پی ٹی آئی کے وکیل امور منصور کے دلائل ختم ہوگئے۔ وکیل اکبر ایس بابر انور منصور نے ہمیشہ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کی ہے ،اگر میں زیادہ وقت لوں گا تو انور منصور اعتراض نہیں کرینگے۔ کیس کی سماعت سوموار 20 جون تک ملتوی کردی گئی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔