فیض آباد دھرنا کیس، تحقیقاتی کمیشن نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو دوبارہ طلب کر لیا

ذرائع کے مطابق اگلے ہفتے جنرل فیض حمید کمیشن کے سامنے  دھرنا کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے۔سابق آئی ایس آئی چیف ایک متعلقہ سرکاری افسر کی حیثیت سے فیض آباد دھرنا کیس اور وجوہات پر شواہد اکٹھے کرنے میں کمیشن کی مدد کریں گے۔

فیض آباد دھرنا کیس، تحقیقاتی کمیشن نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو دوبارہ طلب کر لیا

فیض آباد دھرنا کیس میں بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو اگلے ہفتے طلب کرلیا۔

حکومتی ذرائع نے ہم انویسٹی گیشن ٹیم کو بتایاکہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فیض آباد دھرنا کمیشن نے ٹی ایل پی دھرنا کیس میں دوسری بار طلب کیا ہے۔ اس سے قبل فیض حمید کو دسمبر کے دوسرے ہفتے میں طلب کیا گیا تھا تاہم نوٹس بروقت وصول نہ ہونے پر وہ پیش نہیں ہو سکے تھے۔

طلبی کا نوٹس وزارت دفاع کے ذریعے بھجوایا گیا ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اگلے ہفتے جنرل فیض حمید کمیشن کے سامنے  دھرنا کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے۔

ایک حکومتی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سابق آئی ایس آئی چیف ایک متعلقہ سرکاری افسر کی حیثیت سے فیض آباد دھرنا کیس اور وجوہات پر شواہد اکٹھے کرنے میں کمیشن کی مدد کریں گے۔

حکومتی ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ نوٹس وقت پر وصول نہ ہونے سے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے، کمیشن جنوری کے دوسرے ہفتے اپنی رپورٹ مکمل کرلے گا۔

واضح رہے کہ نومبر میں نگران وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنے کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا جس کے سربراہ ریٹائرڈ آئی جی اختر علی شاہ ہیں۔

اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دیا گیا۔ کمیشن میں ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ اور 2 ریٹائرڈ سابق آئی جیز شامل ہیں جبکہ سابق آئی جی طاہر عالم خان، سابق آئی جی اختر شاہ بھی کمیشن کا حصہ ہیں۔ وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کے تفصیلی ٹی او آرز کی بھی منظوری دے دی تھی۔

اکتوبر میں وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنے کے ذمہ داران کے تعین کیلیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی۔ کمیٹی طے شدہ ٹی او آرز کے تحت انکوائری کرے گی۔

کمیٹی میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، دفاع اور ڈائریکٹر آئی ایس آئی شامل ہیں۔ 6 فروری 2019 کے فیصلے پر عمل درآمد کیلیے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔