چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو کوئی ریلیف نہیں دیں گے جنہوں نے فیض آباد دھرنے کے معاملے میں ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان معاہدے پر گارنٹر کی حیثیت سے دستخط کیے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کے لیے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ تشکیل دیا ہے جو 28 ستمبر کو کو کیس کی سماعت کرے گا۔
نیا دور ٹی وی پر ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور بنچ کے دیگر دو ججز بھی قانون اور آئین کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور آئین کہتا ہے کہ فیض حمید نے سیاست میں حصہ لے کر اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کا فیض حمید کے خلاف فیصلہ متوقع ہے کیونکہ اس وقت کی حکومت اور تحریک لبیک پاکستان ( ٹی ایل پی) کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر ان کے دستخط تھے۔
مزمل سہروردی نے کہا کہ چیف جسٹس ججز کی ترقی میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کریں گے۔ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس اور ججز کی ترقی میں شفافیت چیف جسٹس کے دو اہم مقاصد ہیں۔
تجزیہ کار نے کہا کہ سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی فوج اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے درمیان مفاہمت کی کوشش کر رہے ہیں۔ فوج کے خلاف سیاست نہ کرنا اور 9 مئی کے فسادات میں ملوث افراد کو معاف نہ کرنا درانی کے مفاہمتی منصوبے کی دو اہم شرائط ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے محمد علی درانی کی پارٹی رہنما اسد قیصر سے ملاقات کی تصدیق کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر ٹویٹر ہینڈل کے ذریعے اعلان کیا ہے کہ پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاست نہیں کرے گی۔
تجزیہ کار نے اس پیشرفت کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے پیش کردہ معافی قرار دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معافی کے باوجود فوج عمران خان اور 9 مئی کے فسادات میں ملوث افراد کو معاف نہیں کرے گی۔
مزمل سہروردی نے یہ بھی کہا کہ اسد قیصر کے پی ٹی آئی کے نئے چیئرمین بننے کے کافی امکانات ہیں۔