فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ حکومتی کمیشن یا تو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہے یا پھر نئی تاریخ لکھے گا۔ ہمیں امید ہے انکوائری کمیشن آزادانہ اور شفاف تحقیقات کرے گا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔
آج کی سماعت شروع ہونے سے قبل فیض آباد دھرنا کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی جب کہ وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کمیشن تشکیل دے دیا جس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کردیا۔
وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ آئی جی اختر علی شاہ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا ہے۔ تین رکنی کمشین میں سابق آئی جی طاہر عالم اور ایڈیشنل سیکریٹری وزارت داخلہ خوشحال خان بطور ممبر ہوں گے۔
وفاقی حکومت نے کمیشن کے 10 ٹی او آرز طے کر دیے جس کے مطابق فیض آباد دھرنا کے دوران ٹی ایل پی کو کس نے غیر قانونی فنڈنگ یا دیگر سہولیات فراہم کی۔
ٹی او آر کے مطابق کمیشن اپنا کام دو ماہ میں مکمل کرکے رپورٹ وفاقی حکومت کو فراہم کرے گا اور کمیشن تعین کرے گا کہ پبلک آفس ہولڈرز میں سے کسی نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ کمیشن اس وقت خفیہ اداروں سمیت سرکاری اداروں کے افسران کی ذمہ داریوں کو تعین بھی کرے گا۔
کمیشن اس بات کا بھی تعین کرے گا کہ انٹیلی جنس اداروں اور سرکاری افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی مطلوب ہے تو کیا کارروائی ہونی چاہیے۔کمیشن دھرنے اور ریلیوں کے حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیز اور پولیس کے کردار کا بھی تعین کرے گا۔
کمیشن تجویز دے گا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں موثر نگرانی کریں کہ نفرت انگیز، انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ مواد پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔
وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومتیں کمیشن کی معاونت کی پابند ہوں گی۔ کمیشن کا سیکریٹریٹ اسلام آباد میں ہوگا اور اپنا سیکریٹری ہوگا۔ کمیشن کے اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی۔
کمیشن دو ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے وفاقی حکومت کو رپورٹ بھجوائے گی اور اگر کمیشن کو دو ماہ سے زائد وقت چاہیے تو پھر حکومت سے توسیع کی اجازت لے گا۔ پیمرا کے کوڈ آف کنڈکث کے خلاف ورزی جو اس وقت کی گئی اس کا بھی تعین کرے گا۔ کمیشن سوشل میڈیا پر پھلایا گیا نفرت انگیز اور پرتشدد مواد کا جائزہ لے کر سد باب کے لیے تجویز دے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ انکوائری کمیشن فیض آباد دھرنے کے محرکات کی تحقیقات کرے گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ انکوائری کمیشن میں وزارت دفاع کے کسی نمائندے کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ حکومتی کمیشن یا تو آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ہے یا پھر نئی تاریخ لکھے گا۔ ہمیں امید ہے انکوائری کمیشن آزادانہ اور شفاف تحقیقات کرے گا۔ ٹی او آرز میں یہ کیوں نہیں کہ کیسے ایک ساتھ 9نظرثانی درخواستیں دائر کی گئیں؟
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز میں ایک اضافہ کرنے کی ہدایت کردی۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھانے سے برسوں قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریر کردہ اس سنگین فیصلے میں وزارت دفاع اور تینوں افواج کے سربراہوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے زیر قیادت ان اہلکاروں کو سزا دیں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے پائے گئے۔
انہوں نے وفاقی حکومت کو نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کرنے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
20 روزہ جاری رہنے والے دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں میں زندگی مفلوج کر کے کر عوام کو تکلیف پہنچانے پر متعدد سرکاری محکموں کے خلاف بھی منفی مشاہدات کیے گئے تھے۔
بعد ازاں وزارت دفاع، انٹیلی جنس بیورو، پی ٹی آئی، پیمرا، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید اور اعجاز الحق کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئیں۔
تاہم، زیادہ تر درخواست گزاروں نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں جس پر چیف جسٹس نے سوال پوچھا کہ ہر کوئی سچ بولنے سے اتنا ڈرتا کیوں ہے؟
گزشتہ سماعت کے دوران پیمرا کے سابق سربراہ ابصار عالم نے فیض آباد دھرنے کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت اور میڈیا پر جبر کے انکشافات کیے تھے۔
اس ہفتے کے آغاز میں درخواستوں پر جاری کردہ ایک حکم میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ حکومت سے توقع کرتی ہے کہ وہ دھرنے کے بارے میں فیکٹ فائنڈنگ تحقیقات کو مقررہ وقت کے اندر حتمی شکل دے گی۔انہوں نے ای سی پی کو تھریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور اس کی فنڈنگ سے متعلق رپورٹ تیار کرنے اور جمع کرانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت بھی دی تھی۔
عدالتی حکم نے اٹارنی جنرل (اے جی) کے اعتراض کو دوبارہ پیش کیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے وزارت دفاع کی جانب سے سول نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی اور ایک درخواست انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے دائر کی تھی۔ وفاقی حکومت دونوں کو واپس لینا چاہتی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں اور وہ چار سال آٹھ ماہ سے زیر التوا ہیں۔ وفاقی حکومت سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ فضول درخواستیں دائر کرے گی اور عدالت کے عمل کا غلط استعمال کرے گی۔