اس سلسلے کا پہلا حصہ یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
ڈاکوؤں کے سرگرم ٹولے یا گینگز
اس وقت رانوتی کے کچے میں شر قبیلے سے تعلق رکھنے والے عیدڑ شاخ کے ڈاکوؤں کے ٹولوں میں ثناء اللہ شر کا ٹولہ، عمر شر کا ٹولہ، رانو شر کا ٹولہ، راہب شر اور اس کے ساتھ شہزادو ملہن اور اس کے بھائی کا ٹولہ (جو اب اس سے الگ ہوا ہے)، اور بہادر رند کے ٹولے یا گروہ موجود ہیں۔ اسی طرح ڈاکوؤں کی گینگز یا ٹولے ٹوٹتے جڑتے رہتے ہیں۔ سلطو شر اور حال ہی میں ڈاکو جانو انڈھڑ اور اس کے بھتیجے کے ساتھ مارے جانے والے سومر شر کے ٹولے، 1980 کی دہائی میں کمانڈو شیخ اور کشمیر خان یا صدورو شیخ اور کمال فقیر شیخ کے ٹولوں میں سرگرم علی حسن شیخ اب تک زندہ ہے اور ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق وہ بھی رانوتی کے جنگلات میں سرگرم ہے۔
بدنام ڈاکو میر شیخ کا بھائی وزیر شیخ وہ بھی رانوتی کے کچے میں موجود ہے، کشمور کندھ کوٹ ضلع میں جاگیرانی اور سندرانی قبیلوں میں پرانے اور انعامی ڈاکو جام سندرانی اور فیضو سندرانی، شمال کی طرف پرویز جاگیرانی، علی حسن جاگیرانی، قطب جاگیرانی، علی، جنید جاگیرانی جو زیر تعمیر کندھ کوٹ گھوٹکی پل کے قریب رہ رہا ہے اور پل بنانے والی کمپنی سے بھی بھتہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ پل کی تعمیر پر بھتہ اور وہاں پل پر تعمیر کے کام میں مقامی قبائل کے لوگوں کی ملازمتوں پر بھی ڈاکوؤں کے بیچ تکرار ہے۔
گیمڑو علاقے سمیت سکھر کی طرف علی گوہر چاچڑ ڈاکو سرگرم ہے جو ماضی قریب کے بدنام ڈاکوؤں قادری عرف قادر بخش چاچڑ اور غلام نبی چاچڑ کا خالہ زاد بھائی ہے۔ فرمو عرف فرمان چاچڑ، کشمور کی طرف بھنگوار قبیلے کے ڈاکوؤں کا ٹولہ الگ سرگرم ہے۔ تیغانی قبیلے کے پانچ سے سات ٹولے سرگرم ہیں جن میں جنگل تیغانی اور بیلو تیغانی کے ٹولے بھی شامل ہیں۔ اوگاہی قبیلے کے ڈاکو بھی ہیں۔ کارڑا چاچڑ قبیلے کے ڈاکو تو ہیں لیکن آج کل وہ سرگرم نہیں ہیں۔ سکھر شکارپور شاہ پور بیلو (جنگل) میں جتوئی قبیلے کے ڈاکو، قادرانی جتوئی، مصرانی جتوئی، مررانی جتوئی شاخوں کے ڈاکو، سکھر ضلع میں مہر قبیلے کی جنگا شاخ کے ڈاکو، چاچڑ قبیلے کے گلشیر چاچڑ پنو عاقل کی طرف سرگرم ہیں۔
ڈاکوؤں کے بارے میں سازشی تھیوریاں اورنیم افواہیں
شمالی سندھ کے ان تین چار اضلاع میں ڈاکوؤں کی سرگرمیوں کے متعلق متعدد سازشی تھیوریاں اور نیم افواہ نما خبریں گردش میں ہیں۔ ان سازشی تھیوریوں میں سے ایک تھیوری یہ ہے کہ ان ڈاکوؤں کو اپنی ذاتوں اور قبیلوں کے سرداروں اور وڈیروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ سردار اور وڈیرے متحارب ذاتوں اور قبیلوں کے جھگڑوں اور خونریزیوں میں اور مخالفین کے خلاف ان ڈاکوؤں کو استعمال کرتے ہیں۔ اغواؤں کے تاوان کی بڑی اور بھاری رقوم ان وڈیروں اور سرداروں کی جیب میں جاتی ہیں۔ ڈاکوؤں کے تاوان کا ایک بڑا حصہ بھاری اسلحہ جات اور گولہ بارود پر خرچ ہوتا ہے اور باقی کچھ عیاشی کے لئے 'لڑکے لڑکیاں' رکھنے پر اور کچھ کچے میں 'رہندا سسٹم' پر خرچ ہوتے ہیں (ذیل میں بتاتا ہوں کہ 'رہندا سسٹم' کیا ہے)۔
ایک سازشی تھیوری یہ بھی ہے کہ ان تینوں اضلاع یعنی گھوٹکی، کشمور اور شکارپور میں پولیس ایس ایس پیز کے درمیان تعیناتی پر بزکشی ہے کیونکہ مقامی باخبر لوگ کہتے ہیں کہ نہ فقط ڈاکوؤں بلکہ پولیس عملداروں اور اہلکاروں کیلئے بھی یہ تینوں اضلاع سنہری تکون بنے ہوئے ہیں۔
دوسری سازشی تھیوری کے مطابق تینوں اضلاع گھوٹکی، شکارپور اور کشمور میں ڈاکوؤں کی ساری صورت حال مصنوعی ہے جس میں ڈاکو، وڈیرے، سردار اور پولیس برابر کے ساجھے دار ہیں۔ وگرنہ مقامی کہتے ہیں، 'سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ڈاکوؤں کو پولیس یا فوج ختم کیوں نہیں کر سکتی اگر کرنا چاہے تو؟ حکومت کیوں نہیں ختم کر سکتی کیونکہ سیاسی نیت نہیں ہے نہ سیاسی ارادے ہیں۔ اگر وانا وزیرستان اور سوات میں طالبان ختم ہو سکتے ہیں تو سندھ میں ڈاکو کیوں نہیں؟' اور یہ بھی کہ کندھ کوٹ کشمور گھوٹکی پل کی تعمیر کا ٹھیکہ فرنٹیئر ورکس نے لینے کی کوشش کی تھی جو حکومت نے اسے نہیں دیا۔
سازشی تھیوری میں افواہوں کے بیچ گردش میں ان اضلاع میں باخبر صحافی یہ بتاتے ہیں کہ کچے کی زمینیں بہت ہی زرخیز ہیں اور ان زمینوں میں غیر سول قوتوں یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بھی دلچسپی ہے۔ شکارپور ضلع کے گڑہی یاسین میں زمین کا ایک وسیع رقبہ جو تقریباً 20 ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے، ایوب خان کے دور حکومت میں الاٹ ہوا تھا جو اب شکارپور ضلع میں مقامی لوگوں کو لیز پر دیا گیا ہے۔ اس زمین پر اب قبائلی تنازعے کھڑے ہیں۔ علاقے کے لوگ موجودہ فوجی سربراہ کے زرعی انقلاب کے تصور کے ضمن میں جنگلات کاٹ کر کچے کی زمینیں آباد کرنے کے منصوبوں کی بھی بات کر رہے ہیں۔
ایک اور سازشی تھیوری یہ ہے کہ کئی پولیس ایس ایس پیز اور ڈاکوؤں کے درمیان یہ بھی سمجھوتہ ہے کہ ڈاکو ان کے ضلع کی حدود میں جرائم نہیں کریں گے اور اس کے بدلے میں اپنے علاقے میں کچے میں زمینیں آباد کر کے زمیندارہ کر سکتے ہیں۔ انہیں ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔
اس تھیوری میں اس لیے بھی وزن لگتا ہے کہ ان اضلاع میں ایسے کئی ڈاکو تھے جو ڈاکے چھوڑ کر اپنے علاقوں میں سینکڑوں ایکڑ سرکاری زمینیں آباد کرتے رہے۔ وہ بڑے زمیندار کہلانے لگے تھے۔ خیرپور میرس میں نظرو ناریجو، گھوٹکی میں میر شیخ، رانوتی میں حال ہی میں سلطو شر فقط چند نام تھے۔ سلطو شر کو تو ایک ویڈیو میں کہتے سنا گیا کہ وہ اپنے بچے پنو عاقل اور پشاور میں پڑھا رہا ہے اور دوسرے ڈاکوؤں کو بھی جرائم چھوڑ کر پیش ہو جانا چاہئیے۔ اس ویڈیو میں سلطو شر یہ بھی کہتا ہے کہ میں اپنے افسر دوستوں کی مہربانی سے اب جرائم چھوڑ کر پرامن زندگی گزار رہا ہوں۔ پھر ویڈیو میں سلطو کے 'دوستوں' کے گروپ فوٹو میں فوج کی وردی پہنے ایک شخص بھی نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں سلطو شر رانوتی کے کچے میں جرائم چھوڑ کر زمینیں سنبھال رہا تھا اور پولیس سے تعاون بھی کر رہا تھا تو 'پولیس مقابلے' میں مارا گیا۔ اس کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کے کچھ دن بعد ڈاکوؤں نے پولیس چوکی پر حملہ کر کے کم از کم ایک انسپکٹر سمیت 5 پولیس والوں کو ہلاک کر ڈالا۔
رہندا سسٹم کیا ہے؟
کچے کی کمیونٹی میں ڈاکوؤں کے مخبروں پر اور ان کو راشن سپلائی کرنے، جوتے (کچے اور جنگلات میں ہتھیار کے بعد ڈاکو کیلئے دوسری اہم چیز جوتے ہوتے ہیں جو جلدی جلدی ٹوٹتے رہتے ہیں)، کپڑے، ٹوپیاں (ڈاکو سندھی ٹوپیاں جن میں کچھ پر سیاسی نعرے اور جھنڈے بھی منقش ہوتے ہیں، پہننے کے شوقین ہوتے ہیں)، سگریٹ، بیٹریاں، اب چارجر، فونوں کی سمیں، موٹر سائیکلیں وغیرہ جیسی چیزیں 'رہندا سسٹم' کے ذریعے ڈاکوؤں تک پہنچتی ہیں۔ رہندا سسٹم پکے اور کچے کے اندر ڈاکوؤں کیلئے کام کرتا ہے اور ڈاکوؤں کا قابل اعتبار سسٹم ہوتا ہے کہ 'رہندے' کچے کے ہی باشندے ہوتے ہیں، وہ ڈاکوؤں سے کبھی نہیں بگاڑ سکتے۔ ان کو فراہم کیے جانے والے مال پر دوگنے اور تین گنے پیسے ان سے وصول کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مغویوں کو بھی اپنے پاس چھپاتے ہیں یا ان پر پہرہ دیتے ہیں۔ ڈاکوؤں کے تاوان کی رقم بھی امانت رکھتے ہیں۔ ان کیلئے جاسوسی اور مخبری بھی کرتے ہیں۔ کچے میں ڈاکو اور رہندے 'پُرامن بقائے باہمی' کے اصول پر کاربند رہتے ہیں۔
کچے اور پکے کے علاقے میں پولیس کے کچھ اہلکار و عملدار بھی ڈاکوؤں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں جو ان کیلئے سہولت کاری اور مخبری بھی کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں کشمور پولیس نے قادر بخش نامی پولیس کے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو گرفتار کیا ہے جس نے مریض کو اٹھانے کے بہانے ٹیکسی کرائے پر لی اور راستے میں ڈرائیور کو ڈاکوؤں کے حوالے کر دیا۔ جب یہ خبر مقامی صحافی اور گاؤں والوں کو پڑی تو گاؤں والوں نے ہتھیار اٹھا کر ڈاکوؤں کا پیچھا کیا اور مغوی کو ڈاکوؤں سے چھڑا لیا۔ یہ ساری واردات مقامی صحافی نے سوشل میڈیا پر لائیو نشر کیا۔
ڈاکو سوشل میڈیا پر
سندھ میں کچے کے ڈاکو باقاعدگی سے نہ فقط سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں بلکہ ان میں سے کئیوں کے ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی ہیں جہاں سے وہ باقاعدہ اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ ان ویڈیوز میں ڈاکو منیر مصرانی سکھر کے شاہ بیلو سے اور ثناء اللہ اللہ شر خود کو فقیر ثناء اللہ اللہ شر اور 'مظلوم عوام کا ترجمان' بھی کہتا ہے، گھوٹکی ضلع میں رانوتی کے جنگلات سے سوشل میڈیا کے ذریعے براہ راست لوگوں سے اور پولیس اور اپنے مخالفین سے مخاطب ہوتے ہیں۔
یہ دونوں ڈاکو آواز کے بھی بہت سریلے ہیں۔ ثناء اللہ شر تو باقاعدہ ترنم میں شاعری بھی کرتا ہے اور شاعری میں ہی دوستوں اور دشمنوں سے سوال کرتا اور ان کے سوالوں کے جوابات بھی دیا کرتا ہے۔ اسی طرح منیر مصرانی ڈاکو (شکارپور کے باخبر صحافی بتاتے ہیں کہ اب ڈکیتیاں اور اغوا نہیں کرتا بلکہ پاتھاریداری کرتا ہے۔ پاتھاریداری ڈاکوؤں کی سرپرستی اور ان کو پناہ دینے کو کہا جاتا ہے) نے کچھ عرصہ قبل ایک نہایت ہی پُرسوز نعت بھی ریکارڈ کروائی تھی۔ چند سال قبل وہ لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا نظر آتا ہے اور فجر کی نماز کے بعد جہاد کے سفر پر نکلنے اور مغرب کی نماز سری نگر میں جا کر پڑھنے کا اعلان کرتا ہے۔
اب سیما حیدر کے مسئلے پر منیر مصرانی سمیت سندھ اور جنوبی پنجاب کے کئی ڈاکو بھارت کی طرف سے سیما حیدر کو واپس نہ کرنے کی صورت میں سندھ کے ہندوؤں کے مندر اور املاک پر حملوں اور ان کے قتل عام کی دھمکیاں دیتے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی ویڈیوز میں 'پاک فوج زندہ باد' کے نعرے بھی بڑے شوق سے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک گروہ نے کشمور ضلع میں غوث پور میں مندر پر راکٹ فائر بھی کیا لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ راکٹ باوجود اس کے کہ ایک دن قبل تب اعلانیہ فائر کیا گیا جب سابق ایس ایس پی کشمور نے ہندو برادری کو تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنی سپاہ کی قیادت کرتے ہوئے شہر کے بازاروں میں فلیگ مارچ بھی کیا تھا۔
کئی ڈاکو سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز میں پولیس افسروں کو گالم گلوچ کرتے اور ان کو چیلنج کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے ڈاکو بھی سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں جن میں وہ کہتے ہیں؛ 'ہمارا جھگڑا حکومت اور پولیس سے نہیں، وہ ماں باپ ہیں۔ ہمارا جھگڑا ہمارے دشمن قبیلے اور ذات سے ہے'۔
اپنے نئے بھاری ہتھیاروں جن میں آر پی جی، مشین گنز اور سب مشین گنز شامل ہیں، کی نمائش کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ ایک ضلع کے کچے سے دوسرے ضلع کے کچے تک بغیر کسی روک ٹوک دعوتیں اڑاتے، فائرنگ کرتے، راکٹ داغتے، گانے گاتے اور وعظ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ویڈیو میں ڈاکو اپنے پاس ڈرون کیمرے کی نمائش کرتا نظر آتا ہے اور کہتا ہے کہ اب وہ اس ڈرون سے پولیس کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں اور یہ ڈرون کیمرہ ان کو ان کے 'مہربان افسر' کی مہربانی سے ملا ہے۔
ایک اور ویڈیو میں ڈاکو عمر شر یہ کہتے دیکھا گیا کہ تازہ 'پولیس مقابلے' میں مارے جانے والے ڈاکو جانو انڈھڑ، سومر شر و دیگر ڈاکوؤں کو پنجاب پولیس نے نہیں بلکہ سندھ پولیس نے مارا تھا۔
ڈاکوؤں کی 'سنہری تکون' کا موجودہ منظرنامہ
سندھ کے تین اضلاع گھوٹکی، کشمور اور شکارپور (کچھ حصہ سکھر کا بھی) کے ڈاکوؤں کیلئے سنہری تکون بننے کی وجہ شکارپور کے سینیئر صحافی زاہد نون ان چار موٹے الفاظ میں بیان کرتے ہیں؛
'جنگلات کی لکڑی، دریائی مچھلی، کچے کی زرخیز زمینیں، محکمہ جنگلات کی زمینوں پر قبضے اور زیر تعمیر کندھ کوٹ گھوٹکی پل'۔
قبیلوں کی خونریزیوں اور سرداروں کی سیاسی حرفتوں اور ڈاکو، پولیس، وڈیرا گٹھ جوڑ (جو اب علاقے میں وڈیروں اور سرداروں کا گردن مخلوق پر شکنجہ کس کے رکھا جانا ہے جنہیں اب نام نہاد ' الیکٹ ایبلز' کہا جا رہا ہے) نے بھی علاقے کی صورت حال کو انتہائی مخدوش اور خطرناک بنا رکھا ہے۔
سندھ میں محکمہ جنگلات کی لاکھوں ایکڑ زمین طاقتور وڈیروں، سرداروں، انتہائی با اثر بیوروکریٹس اور دیگر افراد کے قبضے میں ہے۔ سندھ بیلا بچایو کمیٹی یا سندھ تحفظ جنگلات کمیٹی کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی فہرست کے مطابق ان اضلاع گھوٹکی، کشمور۔کندھ کوٹ، شکارپور اور سکھر میں بھی سردار علی گوہر مہر اینڈ برادرز کی طرف سے 2173 ایکڑ، سابق ایم این اے میاں مٹھو اور ان کی فیملی کی طرف سے 1650 ایکڑ، جام مہتاب 122 ایکڑ، احسان سندرانی 308 ایکڑ، احسان مزاری 116 ایکڑ، خالد لونڈ 430 ایکڑ، سید خورشید شاہ 60 ایکڑ، غوث بخش مہر 663 ایکڑ، امتیاز شیخ 92 ایکڑ، سراج دارنی 530 ایکڑ، آغا تیمور پٹھان 403 ایکڑ اور سردار شہریار شر کے 82 ایکڑ زمینوں پر قبضے ہیں۔ ان زمینوں پر کہیں کہیں مچھلی فارم بھی ہیں۔ اب تو دیکھا دیکھی میں ڈاکوؤں نے بھی محکمہ جنگلات کے وسیع رقبے پر قبضے کر کے فصلیں اگانا شروع کر دی ہیں۔ ڈاکو ببول کے بیج بھی بو رہے ہیں۔
1990 کی دہائی میں گھوٹکی ضلع میں ایک قبیلے کے مویشیوں کی جانب سے دوسرے قبیلے کی فصل لتاڑنے پر قبائلی خونی تکرار شروع ہوا تھا جس میں دونوں اطراف کئی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ مہر سردار کیونکہ ہر دور میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں، انہوں نے علاقے میں شر برادری کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کروایا تھا۔ علاقے میں کوئی بھی شر تھا چاہے وہ مجرم ہو یا قانون پسند، اس کیلئے رانوتی اور ارد گرد کی دھرتی تنگ کر دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ شر قبیلے کے بلوچ النسل ہونے کی وجہ سے باقی غیر بلوچ النسل ذاتوں جنہیں 'سماٹ' کہا جاتا ہے، نے شروں کے خلاف اتحاد بنا لیا تھا۔
شر قبیلے کے خلاف یکطرفہ کریک ڈاؤن کا نتیجہ یہ نکلا کہ شر قبیلے کی 6 میں سے اکثر شاخوں سے ڈاکوؤں کے کئی ٹولے پیدا ہوئے۔ کیونکہ وڈیروں اور پولیس گٹھ جوڑ سے قبیلوں کے خونی تکرار میں ملوث یا غیر ملوث لوگ روپوش بنائے گئے جنہوں نے یا اپنے ٹولے بنائے یا پھر پہلے سے کچے اور اس کے جنگلات میں سرگرم ڈاکوؤں کے ساتھ جا ملے۔
شروں کے نہ فقط دیگر قبیلوں کے ساتھ بلکہ خود شر قبیلے کے اندر بھی کئی تنازعات اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسی طرح شر سیلرو تکرار، شر چاچڑ تکرار، شر دھوندو تکرار اور شر کوش تکرار میں خونریزیوں سے باقی قبیلوں، ذاتوں اور پولیس کیلئے یہ علاقہ 'نو گو ایریا' بن گیا۔ متحارب ذاتوں اور قبیلے والوں کی زمینوں اور گھروں پر قبضے بھی ہو گئے۔ اسی طرح علاقے میں سندھ کی سرحد پر پنجاب میں ماچھکو میں سولنگی سردار کے کوش قبیلے کے افراد کے ہاتھوں مبینہ قتل سے کوش سولنگی تکرار بھڑک اٹھا۔
اس کے علاوہ ان ضلعوں میں مہر، لونڈ، مہر جتوئی، مہر تڑت، کلہوڑو، تیغانی چاچڑ، تیغانی بجارانی، بھنگوار، اوگاہی تیغانی، ساوند سندرانی (جس میں چند ماہ قبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر اجمل ساوند بھی قتل ہو گئے) تکرار، جاگیرانی تکرار سمیت کئی قبائلی تنازعوں نے مکمل مسلح قبائلی جنگوں کی شکل اختیار کی ہوئی ہے جن میں جنگی نوعیت کے ہتھیار بڑوں کے ساتھ بچوں کو بھی اٹھائے پھرتے دیکھا جا سکتا ہے جن پہ چائلڈ سولجرز کا گمان ہوتا ہے۔ کچے میں کئی سکول قبائلی تنازعوں کی وجہ سے کئی سالوں سے بند پڑے ہیں۔
'ڈاکو ڈاکو' وڈیروں اور پولیس کا مشترکہ کھیل ہے
ان ذاتوں کے لوگ بوجہ خوف یا کسی اور وجوہ کی بنا پر اپنے قبیلے کے ڈاکوؤں کے خلاف نہیں ہوتے کہ قبائلی جھگڑوں میں ان کے قبیلے کے ڈاکو مخالف قبیلے سے جنگ کرتے ہیں جبکہ متحارب گروہوں کے سردار زیادہ تر آپس میں شیر و شکر رہتے ہیں۔ زین داؤد پوٹو کہتے ہیں؛ 'سارا ڈاکو ڈاکو کھیل ہی وڈیروں کا ہے جو پولیس اور وڈیرے مل کر کھیلتے ہیں۔ یہی وڈیرے ڈاکو بناتے ہیں، پولیس اور وڈیرے مل کر قتلوں میں ملوث لوگوں کو فرار کرواتے ہیں، پھر انہیں نامزد کرواتے ہیں، بوقت ضرورت مروا بھی دیتے ہیں، انہی ڈاکوؤں کے ذریعے وڈیرے اور سردار مخالفین پر اپنا دبدبہ اور دہشت بھی قائم رکھتے ہیں'۔
ماضی اور حال میں بھی پولیس نے 'حکمت عملی' کے طور ایک قبیلے کے ڈاکوؤں کو دوسرے قبیلے کے ڈاکوؤں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے ایک قبیلے کے ڈاکوؤں کا خاتمہ کیا ہے۔ یا مقامی مجرموں اور پتھارے داروں پر ہاتھ رکھ کر ڈاکوؤں کو ان کے ہاتھوں مروا کر پھر جعلی مقابلے دکھا کر ان ڈاکوؤں پر مقرر انعام خود بٹورا ہے۔ یا ایک مخالف قبیلے کے لوگوں کے ساتھ مل کر دوسرے قبیلے کے ڈاکوؤں کو مارا ہے۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔
شمالی سندھ کے کچے میں بغیر وردی والی پولیس سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ 'اگر پولیس غیر سیاسی اور غیر جانبدارانہ انداز سے، بغیر کسی ایک قبیلے یا سردار کا ساتھ دیے آپریشن کرے تو ڈاکوؤں کا خاتمہ ممکن ہے، جیسا جانو انڈھڑ کے معاملے میں ہوا ہے اس طرح کے آپریشنز کی ضرورت ہے'۔
ایسا ہوا ہے لیکن کم ہوا ہے جب کچھ پولیس افسروں نے ڈاکوؤں سے سرینڈر کروایا ہے اور پھر انہوں نے عدالتوں کا سامنا کیا ہے۔
شکارپور کے کہنہ مشق صحافی زاہد نون کہتے ہیں کہ ڈاکو کا فقط ایک دن ہوتا ہے اور وہ ہے الیکشنز والا دن۔ جب کچے میں کچھ وڈیروں اور سرداروں کو ووٹ ڈاکو ڈلواتا ہے اور وڈیرے اور سردار کے مخالف ووٹروں اور پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ سٹیشنوں سے پرے رکھتا ہے۔
الیکٹ ایبلز، سردار اور وڈیرے
تحقیقی صحافی اور لکھاری ممتاز بخاری سوشل میڈیا پر اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ 'حکمرانوں نے الیکٹ ایبلز کو علاقے ان کی ریاستوں کی طرح تقسیم کر کے دیے ہوئے ہیں'۔ اور یہ حقیقت ہے کہ کچے یا پکے پر جو الیکٹ ایبلز ہیں انہوں نے مختلف ذاتوں اور قبیلوں کے چھوٹے چھوٹے خود ساختہ وڈیروں یا سرداروں کے ہاتھ میں سات سات ہزار یا سات سات سو ووٹرز کی چھوٹی بڑی ٹکڑیاں اور حلقوں میں ووٹ بینک بانٹا ہوا ہے جہاں ان کے اوپر مقامی سابقہ اور حاضر کرمنل، پتھاریدار، خود ساختہ وڈیرے، سردار ہیں جو ان الیکٹ ایبلز سے اپنے قبیلوں اور ذاتوں کے ووٹ تھوک کے حساب سے بول لیے ہوتے ہیں۔ صلے میں یہ علاقے ان چھوٹوں بڑوں خود ساختہ 'معززین'، چھوٹے موٹے وڈیرے، مقدم، پتھاریداروں کو اپنے اپنے علاقوں اور 'راجوں' میں سفید و سیاہ کے بغیر کسی روک ٹوک کے مالک بنے ہوئے ہوتے ہیں جسے 'باندھ چھوڑ' کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی کو اندر کروانا اور کسی کو باہر۔
سندھی میڈیا کچے اور پکے کے ڈاکو کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ یعنی کچے کے ڈاکو اور پکے پر رہنے والے سرپرست سردار وڈیرے۔ شکارپور ضلع غوث پور میں ایک نوجوان سماجی کارکن اس تمام صورت حال کو ایک جملے میں سمیٹتے ہیں؛ 'اصل میں سندھ میں پکے پر مذہبی شدت پسند تنظیموں کا قومی شاہراہ اور دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر بڑھتا اثر و رسوخ، مدرسوں کا بچھایا ہوا جال اور کچے میں ڈاکو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں'۔