Get Alerts

سندھ میں ڈاکوؤں کی سنہری تکون؛ کیا پولیس بھی شریکِ جرم ہے؟ (I)

یہ ڈاکو اتنے ہی بلکہ ان سے بھی زیادہ کریہہ اور ظالم لیکن سائبر ایج آشنا اور انتہائی متشدد اور اپنے اور پبلک کیلئے کچھ کچھ تفریح بھی لئے ہوئے ہیں یہاں تک کہ شعر اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ اور جواب در ایں غزل کے مصداق اپنے مخالفین کو جواب بھی شاعری اور ترنم سے دیتے ہیں۔ وعظ بھی کرتے ہیں۔ قرآن اور حدیث کے حوالے بھی دیتے ہیں۔

سندھ میں ڈاکوؤں کی سنہری تکون؛ کیا پولیس بھی شریکِ جرم ہے؟ (I)

سندھ کے تین اضلاع؛ گھوٹکی، کشمور اور شکارپور ڈاکوؤں (دھاڑیلوں)، پولیس، وڈیروں اور ان کے سرپرستوں کیلئے سنہری تکون بنے ہوئے ہیں۔ دریائے سندھ کے بائیں کنارے کچے کا علاقہ اور اس کے جنگلات ڈاکوؤں کے لئے ایک جنت اور محفوظ پناہ گاہیں جبکہ عام شہریوں اور اقلیتوں، یہاں تک کہ بچوں کیلئے جہنم بنے ہوئے ہیں۔

یہ کوئی بمشکل 60 میل لیکن پانچ لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین اور جنگلات پر پھیلا ہوا رقبہ ہے جو شمالی سندھ میں تین اضلاع پر مشتمل ہے۔

لیکن یہاں لگتا ہے کہ ڈاکو اکیسویں صدی میں سرگرم ہیں جو فوجی نوعیت کے ہتھیار جن میں اینٹی ایئر کرافٹ گنیں، جی تھری رائفلیں، سب مشین اور مشین گنیں، راکٹ لانچر، اور ڈرون کیمروں سے لیس اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ بیان کہ کچے کے ڈاکوؤں کے پاس نیٹو کی فوج کا افغانستان میں چھوڑا ہوا اسلحہ بارود ہے، بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ سندھ کے کچے کے ڈاکو سر سے پاؤں تک کتنے مسلح ہیں۔ ڈرون کیمروں کے ذریعے وہ پولیس کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی انتہائی سرگرم ہیں۔ ان کے اور ان کے بہی خواہوں کے نام پر ان کے فیس بک پیجز اور یوٹیوب چینل ہیں، تازہ ترین فیچرز والے آئی فونز ان کے پاس ہیں۔ وہ باقاعدگی سے اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ کئی ویڈیو میں وہ اپنے زنجیروں میں بندھے اور ان پر بہیمانہ تشدد کرتے مغویوں جن میں بچے بھی شامل ہیں (کچھ ویڈیوز میں ان مغویوں کے ساتھ میل ریپ کرتے ہوئے بھی) ان کے ورثا کو ان کی رہائی کیلئے جلدی تاوان اور مغویوں کے ذریعے پولیس کے ہاتھوں ان کے گرفتار گھر والوں اور رشتہ داروں کو پولیس سے آزاد کروانے اور حکومت کو اپیلیں کروانے کے لئے جاری کرتے رہتے ہیں۔

'صرف گھوٹکی ضلع میں رانوتی کچے کے جنگلات دو لاکھ ایکڑ زمین پر مشتمل ہیں'۔ سندھ میں جنگلات کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی تنظیم 'بیلا بچایو کمیٹی' یا 'کمیٹی برائے تحفظ جنگلات' کے سربراہ اور دن رات اس کیلئے سرگرداں زین داؤد پوٹو کہتے ہیں۔ زین داؤد پوٹو ٹھٹھہ سے لے کر کشمور تک سندھ میں جنگلات کے تحفظ کیلئے اور محکمہ جنگلات کی زمینوں پر قبضوں کیخلاف سپریم کورٹ تک گئے ہیں۔ انہوں نے سندھ میں محکمہ جنگلات کی زمینوں پر محکمہ جنگلات اور اپنے ذرائع کی تصدیق سے ایسے طاقتور قبضہ گیروں کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی۔ سپریم کورٹ ایسے طاقتور قبضہ گیروں سے ٹھٹھہ سے کشمور تک محکمہ جنگلات کی زمینوں پر قبضہ خالی کروانے کا حکم حکومت سندھ کو کب سے دے چکی ہے لیکن قبضے اب تک زیادہ تر خالی نہیں کروائے گئے۔ کچے میں قبضوں کی اس سرزمین پر جائے تو جائے کون؟ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟ نہ پولیس، نہ رینجرز اور نہ ہی محکمہ جنگلات۔ لیکن ایک سوال کے جواب میں زین داؤد پوٹو کہتے ہیں؛ 'جہاں ڈاکو ہیں وہاں جنگلات تو ہیں ہی ہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکو جنگل نہیں کاٹنے دیتے'۔

گھوٹکی ضلع میں رانوتی کے کچے سمیت تحصیلیں اباوڑو اور گیہلپور کے کچے سمیت کشمور جن کی سرحدیں پنجاب اور بلوچستان سے لگتی ہیں، تو یہ علاقے دونوں جنوبی پنجاب اور سندھ کے ڈاکوؤں کے گروہوں اور شدید ترین قبائلی خونریزیوں کی آماجگاہ بھی ہیں۔

یہی وہ علاقہ ہے جہاں حال ہی میں پانچ ڈاکوؤں جن کا سرغنہ پنجاب کا ڈاکو جانو انڈھڑ، اس کا چچا زاد بھائی مشیر انڈھڑ اور ایک پولیس مخبر (لیکن سنگین جرائم میں مجرم) جنسار چانڈیو مارے گئے۔ ان کے قتل سے متعلق دونوں صوبوں کی پولیس انہیں 'پولیس مقابلوں' میں مارنے کے دعوے کر رہی ہے۔ ان انعامی ڈاکوؤں (سندھ میں ڈاکو اور پولیس انعامات رکھے ڈاکوؤں کو انعامی کہتے ہیں) کے سروں پر رکھے گئے انعامات پر بھی سندھ اور پنجاب کی پولیس اپنے اپنے صوبوں کی حکومتوں سے دعوے بھی کر رہی ہیں۔ پنجاب پولیس یہ مبینہ پولیس مقابلہ ان کی ماچھکو اور کوٹ سبزل حدود کے بیچ تھانہ حاجی خان کی حدود میں کر رہی ہے جبکہ سندھ پولیس ایسے مقابلے کا دعویٰ کشمور کے کچے کے علاقے گیہلپور کی حدود میں کر رہی ہے۔

کشمور کے کچے کا یہی علاقہ ہے جہاں 1991 میں دریائے سندھ کی سیاحت کرتے جاپانی سیاحوں کو ڈاکوؤں نے اغوا کر لیا تھا۔ ان دنوں سندھ پر جام صادق علی کی حکومت تھی۔ جاپانی سیاحوں کو اغوا کرنے والے ڈاکوؤں کا سرغنہ غلام رسول شیخ عرف کمانڈو شیخ تھا جس سے جام صادق حکومت کی طرف سے مذاکرات اور بھاری تاوان کی ادائیگی کے بعد جاپانی سیاح رہا ہو کر آئے تھے۔ ان ہی دنوں 'ہیلڈ ٹو رینسم' کے عنوان سے ڈاکوؤں پر پروڈیوسر فرح درانی کی بی بی سی پر ایک دستاویزی فلم نشر ہوئی تھی جس کی حدود اربع اسی کشمور کے کچے کی تھی۔ اسی فلم میں انٹرویو میں ایک ڈاکو کہتا ہے؛ 'ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔ صرف ایک اللہ اور دوسرا فوج سے ڈرتے ہیں'۔

وہ 1990 کی دہائی کے ڈاکو تھے اور یہ اکیسویں صدی کی پہلی تین دہائیوں کے۔ یہ ڈاکو اتنے ہی بلکہ ان سے بھی زیادہ کریہہ اور ظالم لیکن سائبر ایج آشنا اور انتہائی متشدد اور اپنے اور پبلک کیلئے کچھ کچھ تفریح بھی لئے ہوئے ہیں یہاں تک کہ شعر اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ اور جواب در ایں غزل کے مصداق اپنے مخالفین کو جواب بھی شاعری اور ترنم سے دیتے ہیں۔ وعظ بھی کرتے ہیں۔ قرآن اور حدیث کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ یہ سندھ ہے، یہاں پولیس والے بھی شاعر اور ڈاکو بھی شاعر ہیں (یہ بہرحال ایک اور بادشاہی کا قصہ ہے)۔

'تینوں اضلاع ان ڈاکوؤں کو گویا ریاستیں اور پرگنے کر کے دے دیے  گئے ہیں'، تحقیقی صحافی ممتاز شاہ لکھتے ہیں۔ حال ہی میں کشمور میں پانچ ڈاکوؤں کے مارے جانے کے باوجود نہ ڈاکوؤں کی صحت پر اور نہ ہی عام شہریوں اور دیہی سندھ کے عوام کی زندگیوں پر کوئی اثر پڑا ہے کہ چھوٹے بچوں سمیت اب بھی کوئی 30 سے 40 لوگ ڈاکوؤں کے مختلف گروہوں کے چنگل میں ہیں۔ ان یرغمالیوں میں کشمور شہر کی ہندو پنچایت کے مکھی بھی شامل ہیں تو ان کے ساتھ چھوٹے بچے بھی۔ ایک 10 سالہ بچی پریا دو سال قبل سکھر کے شہر سنگراس سے اس وقت اغوا کی گئی تھی جب وہ دس محرم پر پانی کی سبیل پر پانی پلا رہی تھی۔ پریا کو پولیس آج تک بازیاب نہیں کرا سکی۔ حال ہی میں پریا کی والدہ کی ڈاکوؤں کو اپیل کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں ان کی بیٹی کو رہا کیا جائے۔ وہ وعدہ کرتی ہیں کہ وہ پاکستان میں نہیں رہیں گے، انڈیا چلے جائیں گے۔ شکارپور اور کندھ کوٹ کے بیچ ایک گاؤں کے باشندے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں ہندوؤں کے عالیشان طرز تعمیر پہ بنے ہوئے گھر ہیں جو وہ چھوڑ کر اونے پونے داموں فروخت کر کے بھارت یا پھر کندھ کوٹ شہر نقل مکانی کر گئے ہیں۔

غریب، کمزور، مزدور پیشہ لوگ، اقلیتیں اور مس کالز پر کان دھرنے والے عاشق مزاج لوگ خاص ٹارگٹ

شمالی سندھ کے ان تین اضلاع میں ڈاکوؤں کے گروہوں کی اغوا کی کارروائیوں کا زیادہ شکار روزانہ کی دیہاڑی لگانے والے کسان اور مزدور لوگ، کمزور ذاتوں اور برادریوں کے لوگ اور خاص طور پر اقلیتوں کے لوگ بنتے ہیں۔ معصوم بچے ہیں اور مسلسل ان کا ہدف ہندو برادری کے لوگ ہیں۔ لڑاکا کار قبیلوں اور برادریوں کے لوگوں کو اٹھانے سے یہ گروہ زیادہ تر کتراتے ہیں کہ ایک تو وہ مسلح ہو کر ان کے پیچھے آ کر اپنے بندے چھڑوا لیتے ہیں یا پھر اس میں قبائلی خونریزیوں کا خدشہ ہوتا ہے۔ مزدور پیشہ، دیہاڑی دار اور کسان لوگوں کے اگرچہ آگے پیچھے کوئی نہیں ہوتا لیکن سوشل میڈیا پر ان کے اغوا پر دیر سے سہی لیکن پولیس اور اعلیٰ حکام کیلئے سر درد بن جاتے ہیں۔

ایسے کیسز بھی ہوئے ہیں جن میں پولیس والے چندہ کر کے تاوان کے پیسے بھر کر مغوی چھڑا کر آئے ہیں۔

مغویوں پر ڈاکو بہیمانہ تشدد کرتےاور ان کی ویڈیو جاری کرتے ہیں جس پر ان کے خاندان کے لوگ اور کہیں پولیس بھی ان کو خانگی طور پر چھڑوانے کی کوششیں کرتی ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ کہیں کہیں کسی گروہ کے ڈکیتوں نے مغویوں کے ساتھ میل ریپ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کی ہیں۔

نیز ایک ہدف ڈاکوؤں کا متوسط اور نچلے متوسط یا سفید پوش طبقات، پرامن ذاتوں اور برادریوں کے لوگ ہیں جن سے منہ مانگے اور جلد ہی تاوان مل جاتا ہے اور قبائلی جھگڑوں کا بھی خدشہ نہیں ہوتا۔

دوسرے صوبہ کے لوگوں کو اغوا کرنے سے زیادہ تر کتراتے ہیں کہ کہیں کوئی کسی فوجی کا رشتہ دار نہ نکل آئے۔ حال ہی میں ایک پشتون کو اغوا کیا گیا لیکن اس کے دوست اور اعزا کے دھرنوں کے بعد اسے آزاد کر دیا گیا۔

شمالی سندھ میں اکثر ہندو برادری کے لوگوں کے پاس ان کے عزیزوں کی ڈاکوؤں کے ہاتھوں ہلاکتوں یا پھر اغوا کی داستانیں ہیں۔ اس وقت بھی کشمور کی ہندو برادری کا مکھی ڈاکوؤں کے پاس یرغمال ہے جسے اس کے معصوم بچے کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا۔ حال ہی میں کشمور کے شہر بڈانی کے ڈاکٹر لجپت پر حملہ میں اسے زخمی کر کے اس کے چھوٹے بچے آدیش کمار کو اغوا کر لیا گیا۔ سندھ میں ہندو برادری کی غیر رپورٹ شدہ لیکن مسلسل بھارت کی طرف نقل وطنی جاری رہتی ہے جس کی وجوہات ان کی لڑکیوں اور عورتوں کے زبردستی تبدیلی مذہب اور ان کے خلاف ڈاکوؤں کی کارروائیاں ہیں۔ اب بھی سیما جکھرانی کے معاملے میں ڈاکوؤں کی طرف سے دھمکیاں سندھ کے ہندوؤں کو مل رہی ہیں۔

تیسرا سب سے مرغوب اور آسان اغوا ڈاکوؤں کیلئے عورتوں کی آواز میں مس کال دے کر تمام ملک میں اپنے ٹارگٹ ڈھونڈنا ہے جو خود چل کر ڈاکوؤں کے پاس پہنچ کر اغوا ہو جاتے ہیں۔ پولیس ایسے ٹھرکی مغویوں کو اغوا ہونے سے بچانے میں کیسے کامیاب ہو سکتی ہے کیونکہ یہ عاشق مزاج لوگ پولیس سے بچتے بچاتے اپنے لیے بچھائے جال میں خود ہی جا پھنستے  ہیں۔ ڈاکوؤں نے پہلے تو عورتوں کی آواز میں فون پر باتیں کرنے والے مرد رکھے ہوئےتھے۔ لیکن اب بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے عورتیں بھی رکھ لی ہیں جو مس کال کر کے ان کو ایسے مغوی پھانس دیتی ہیں۔ یہ مغوی ملک بھر سے کشمور کے کچے میں آ کر پھنستے ہیں جہاں ان کو یہ عورتیں یا عورت کی آواز میں بات کرنے والے مرد ملاقات کا جھانسہ دے کر بلاتے ہیں۔ پولیس ان میں سے کچھ کو پکے پر اور کچھ کو اپنی چوکیوں پر روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن کئی اس 'شہد والے جال' میں پھنس جاتے ہیں۔

ڈاکو فیکٹری؛ ڈاکو کون بناتا ہے اور ڈاکو ہیں کون؟

شمالی سندھ کے کچے میں رانوتی کے کچے سے لے کر شکارپور اور سکھر میں شاہ بیلو تک اور کشمور کندھ کوٹ میں گولو دڑو، سندرانی اور کندھ کوٹ کچے پکے تک کئی متحارب قبائل ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں ہیں اور ان متحارب قبائل کے اپنے اپنے ڈاکو گروہ ہیں۔ کئی متحارب قبائل کے نوجوان قتل و غارت گری میں مطلوب روپوش ہو جاتے ہیں۔ کئیوں پر قتل، اغوا، ڈاکوں کے سچے جھوٹے مقدمات ہیں۔ یہ مقدمات زیادہ تر ایسے متحارب قبائل کے سرداروں اور پولیس کی ملی بھگت سے بھی بنتے ہیں کہ متحارب قبائل کے لوگ مقدمات میں نامزد کیے جائیں گے۔ پولیس ریکارڈ کیلئے کچھ پیش ہوں گے اور کئی روپوش ہو جائیں گے۔ کئی اپنے گھر والوں سمیت یہاں تک کہ دور کے رشتہ داروں اور دوستوں سمیت بھی مسلسل پولیس کارروائیوں اور تشدد کے شکار رہیں گے۔ کئی فری لانسر اور کئی شوقیہ ڈاکو اور اغوا کار بھی ہیں۔

کچے کے ڈاکوؤں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی بھی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی ڈاکے، چوری، اغوا میں ملوث نہیں البتہ 'قومی جھگڑوں' میں ملوث ہیں۔ یہ ڈاکو قبائلی تنازعوں کو 'قومی جھگڑے' کہتے ہیں۔ پولیس اب بھی انگریز بیٹھکی راج کی طرح قبیلوں کو 'کرمنل ٹرائبز' یا 'مجرم قبائل' کے زمرے میں رکھتی ہے۔

گھوٹکی ضلع کے رانوتی کے جنگلات کے ایک سینیئر پولیس افسر کچھ یوں بریک ڈاؤن بتاتے ہیں؛

گھوٹکی ضلع میں کوئی 24 قبائل ہیں جو زیادہ تر ایک دوسرے کے خلاف جدید ترین ہتھیاروں سے متحارب ہیں۔ بھٹو اور شر قبیلہ (شر قبیلے کی کوئی 10 شاخیں، سب کاسٹس یا 'پاڑے' ہیں) اور کوش قبیلے کی کوئی 5 شاخیں ہیں۔ بھٹو اور شر قبیلہ تنازعہ، مہر اور شر تنازعہ، دھوندو اور شر تنازعہ، کوش اور شر قبیلائی تکرار اور شر قبائل کے آپس میں بھی تکرار ہیں۔ 20 کلومیٹر پر پھیلے رانوتی کے جنگلات اور پندرہ سے بیس ہزار کے کچے اور جنگلات کی اس آبادی میں ڈاکوؤں کے چھوٹے بڑے کوئی 8 سے 12 گروہ انتہائی سرگرم ہیں۔ ہر ایک گروہ میں 3، کسی میں 8 سے 10 اور کچھ میں 15 رکن ہوتے ہیں۔ ان گروہوں کے جرائم کی نوعیت اغوا، قتل، ڈکیتیاں، مال مویشیوں کی چوری، فصلوں کو نقصان، سرکاری زمینوں پر قبضے، جنگلات کی لکڑی یا ٹمبر کاٹنا اور دریائی مچھلی کی چوری جیسے جرائم پر مبنی ہے۔

ڈاکوؤں کے پاس ہتھیار کون سے ہیں؟

ڈاکو اکثر اوقات اپنے جدید اور خطرناک و جنگی نوعیت کے ہتھیاروں کی نمائش بذریعہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ صرف ایک فون کال پر وہ خطرناک اور فوجی نوعیت کے ہتھیاروں کا ڈھیر لگا سکتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے پاس ہتھیار دیکھنے، ٹیسٹ کرنے اور مبارک دینے پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ تو پولیس کا بھی ماننا ہے کہ جس نوعیت کے جدید، خود کار اور نیم خود کار چھوٹے بڑے ہتھیار ڈاکوؤں کے پاس ہیں، پولیس کے پاس ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ صرف رانوتی کے کچے میں ایک سینیئر پولیس افسر اپنی چند سال قبل معلومات اور رپورٹوں کے مطابق بتاتے ہیں کہ بڑے اور فوجی نوعیت کے ہتھیاروں میں اینٹی ایئر کرافٹ گنیں جو رانوتی کے جنگلات میں آٹھ سےدس کی تعداد میں تھیں، پندرہ سے بیس آر پی جی سیون راکٹ لانچر، دو سے تین کی تعداد میں آر سیونٹی فائیو، کم از ایک 14 اعشاریہ 5 مشین گن اور ایک ایل سولہ لانچنگ گن موجود تھی۔

اس سینیئر پولیس افسر کی تعیناتی کئی سال شمالی سندھ کے کچے کے علاقے میں رہی ہے۔ اب رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ اب ان ہتھیاروں کو تین گنا زیادہ کر لیں جو صرف رانوتی جنگلات اور اس کے کچے میں ڈاکوؤں کے پاس ہیں۔ پولیس افسر مانتے ہیں کہ ان کی بکتر بند یا چین ٹینک کی چادر چاہے پولیس اس کو ڈبل کروائے تو بھی ڈاکو اپنے اسلحے سے پھاڑ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گندم کی فصل کی کٹائی کے بعد علاقے میں اسلحہ بے انداز پہنچا ہے۔

ایسا واقعہ شکارپور اور کشمور اضلاع کے بیچ ایک سال قبل گولو دڑو میں ہوا تھا جب بکتر بند پر حملہ کر کے ڈاکوؤں نے 5 پولیس افسر ہلاک کر دیے تھے اور پھر اسی بکتربند پر چڑھ کر اپنی 'فتح' کا جشن منایا تھا۔ بعد میں اس گروہ کے سرغنہ جھنگل تیغانی کو پولیس نے ایک مقابلے میں ہلاک کر دیا تھا۔

پولیس افسر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ رانوتی کچے سے لے کر شکارپور، کشمور اور کندھ کوٹ تک یہ کچے کے علاقے پولیس کیلئے 'نو گو ایریاز' بن چکے ہیں۔

ڈاکوؤں کے پاس اسلحہ آتا کہاں سے ہے؟

تینوں اضلاع میں پولیس عملدار اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ڈاکوؤں کے چھوٹے اسلحے کے کئی ذرائع ہیں لیکن بڑا اور جنگی نوعیت کا اسلحہ بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں سے بلوچ علیحدگی پسند سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کو فروخت کر رہے ہیں۔ ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ کچھ روز قبل مارے جانے والا ڈاکو جانو انڈھڑ اور اس کی گینگ شمالی سندھ کے کچے اور بلوچ عسکریت پسندوں کے بیچ اسلحے کا ایک بڑا رابطہ تھے اور علاقے میں بہت اسلحہ لائے تھے۔ سندھ کے کچے میں کئی برس تعینات رہنے والے یہ سینیئر پولیس افسر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں؛

'جنوبی پنجاب میں فاضل پور اور راجن پور کی مغربی سمت کوہ سلیمان کے اس پار جو بلوچوں کی جنگ آزادی کا سلسلہ چل رہا ہے، وہاں سے بڑا ہتھیار بے انداز آ رہا ہے۔ بلوچ عسکریت پسند مثال کے طور پر ایک ہزار روپے والی چیز جو آرمی کے ساتھ جھگڑے میں آزماتے ہیں وہ چیز استعمال کے بعد ڈھائی ہزار میں ڈاکوؤں کو بیچتے ہیں۔ کوہ سلیمان کو کراس کر کے یہ ہتھیار راجن پور اور فاضل پور کے کچے میں آ رہے تھے۔ وہاں سے پھر کچے والا روٹ ڈاکوؤں کیلئے آزاد ہے۔ یہ ہتھیار کشمور تک آتے ہیں اور پھر وہاں سے کشتیوں کے ذریعے دریائی راستے سے کچے میں ڈاکوؤں کو ان کی کمین گاہوں تک پہنچتے ہیں۔ اگر دریائی راستے سے ہتھیار نہ بھی آئیں تو دونوں اطراف دریا کے بند سے جو جنگلات ہیں وہ جنگلات اسلحہ پہنچانے کا محفوظ روٹ ہیں'۔

ایک آزاد تحقیقی صحافی بھی اس پولیس افسر کی رپورٹوں کو ممکن مانتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے علاوہ اور روٹ قبائلی علاقوں سے ہتھیاروں کے ڈیلر بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ سندھ کے ڈاکوؤں کا ذریعہ بلوچ عسکریت پسند اور مذہبی شدت پسند تنظیمیں دونوں ہو سکتے ہیں۔

لیکن علاقے سمیت سندھ میں سب سے بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ بڑا اور جنگی یا عسکری نوعیت کا اسلحہ ڈاکوؤں کو کون فراہم کر رہا ہے؟

***

جاری ہے۔۔۔