Get Alerts

بلوچ کی چیخیں بی ایل اے سے پہلے سن لی جاتیں تو بہتر نہ ہوتا؟

عام بلوچ سوچتا ہے؛ مزاحمت کے بغیر بلوچستان کو کون سن رہا ہوتا؟ آپ فوج کے تشدد پر بلوچستان کی چیخیں جوابی تشدد کے بغیر سن لیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ یوں کوئی معصوم بلوچ گمشدگی کا شکار ہوتا، اور نا ہی کوئی معصوم پنجابی اپنی قیمتی جان گنواتا۔

بلوچ کی چیخیں بی ایل اے سے پہلے سن لی جاتیں تو بہتر نہ ہوتا؟

ماہ رنگ، 25 اور 26 اگست کی درمیانی رات، بے خبر سوئی ہو گی۔ صبح جب وہ اٹھی، اس کی سیاسی نیک نامی داغ دار کی جا چکی تھی۔ 'تشدد کے وہ خلاف ہے، مذمت پھر کیوں نہیں کرتی؟ وہ اپنی سیاسی نیک نامی کا ثبوت پیش کرے'۔ کئی پیشہ ور مذمت کار انگلیاں اٹھائے اس کی جانب غضب ناک سوالات پھینک رہے تھے۔

گذشتہ ماہ اگست کے آخری ہفتے کا یہ نازک دن افسوس ناک طورپر بھاری تھا۔ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا تھا۔ وہ مبہوت ہوئی اور سہم گئی۔ وقت دو راہے پر، مذمت اور خاموشی پر آ کر رک چکا تھا۔ مگر ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ بلوچوں میں سے بیش تر جانتے ہیں کہ بلوچ لبریشن آرمی جب کوئی کارروائی کرتی ہے، بلوچستان میں تشدد کی جب کوئی واردات ہوتی ہے، سرٹیفائیڈ محب وطن اپنی امن پسندی کی صفائی دینے کیلئے اُسے گھیر لیتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں۔ تشدد سے اس کا بچپن سے سامنا ہوتا آیا ہے۔ تشدد نے اس سے اس کا باپ چھینا۔ تشدد پر قہر آلود انگلی اٹھانے والوں میں سے تب، غفار لانگو کے قتل پر، مذمت کیلئے کوئی اس کے سرہانے موجود نہیں تھا۔ اس کا باپ ایک بلوچ کی موت مرا۔

ماہ رنگ کے کندھوں پر غرضیکہ اس مذمت کا بھاری بوجھ تھا۔ بہرحال اس نے عمومی تشدد کی مذمت کر دی۔ پاکستان، بلوچوں کے خلاف جاری تشدد پر، بلوچستان میں سالمیت کی گہری نیند سو رہا تھا۔ بی ایل اے کے پرتشدد واقعات نے قہر ڈھا دیا۔ مذمت کاروں کی پیشہ ور جماعت پرسکون نیند سے اٹھ بیٹھی۔ بلوچستان آج تشدد کی شدت اور اس کے ہلاکت خیز اثرات کے نتیجے میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ یہاں ریاست کی سیاست میں تشدد کے تاریخی آثار و شواہد ملتے ہیں۔ بیابانوں میں مسخ لاشوں کے ڈھانچے، گمشدگان کے ناموں کی دستاویزات، آتش زدہ مقامات، گولوں کے شکار کھنڈرات میوزیم قائم کیے جانے کی کم و بیش شرائط پوری کرتے ہیں۔ یہاں ریاستی تشدد کو مذمت کے نسخہ فروشوں میں قبولیت عام کا درجہ حاصل ہے، جو ملکی سالمیت کے نام پر اسے پسند کرتے ہیں لہٰذا تشدد کے نتیجے میں جو تشدد ابھرا ہے، وہ ان کو ناگوار گزرا۔

عام بلوچ سوچتا ہے؛ مزاحمت کے بغیر بلوچستان کو کون سن رہا ہوتا؟ آپ فوج کے تشدد پر بلوچستان کی چیخیں جوابی تشدد کے بغیر سن لیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ یوں کوئی معصوم بلوچ گمشدگی کا شکار ہوتا، اور نا ہی کوئی معصوم پنجابی اپنی قیمتی جان گنواتا۔

بلوچ قوم پرستانہ سیاسی تشدد کی تاریخ کو روایتی نپے تلے انداز میں دیکھنا لاحاصل ہے۔ پاکستان کے آئین و قانون پر یقین رکھنے والے غوث بخش بزنجو کے پیروکار سیاسی خاندان کی پڑھی لکھی بچی ماہل بلوچ نے وراثت میں ملنے والی پرامن سیاست کے برعکس خود کو فدائی حملہ آور بننے پر مجبور پایا۔ وہ قانون کی طالبہ تھی، اور قانون کو بے بس سمجھتی تھی۔ کیا ریاستی تشدد اور نتیجتاً پیدا ہونے والے انتشار و تشدد کے درمیان تفریق ممکن نہیں؟ زور و جبر سے منوانے اور لاپتہ کرنے پر خاموشی اتنی ہی قابل مذمت ہے جتنا کہ بذات خود تشدد۔ سرٹیفائیڈ محب وطن اپنی دہائیوں پر پھیلی مجرمانہ خاموشی پر یقیناً خود کی مذمت نہیں کرتے۔ سالمیت و سلامتی کی آڑ میں ہونے والے تشدد پر جو خاموش رہتے ہیں، وہ دراصل تشدد کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں۔ تشدد پر خاموشی اس پر پسندیدگی کا اظہار ہے۔ تشدد کے دو مختلف پیمانوں کو جدا نہ کرنا جانبداری ہی ہے۔

ساجد حسین، بلوچ صحافی، کو بلوچستان چھوڑے کئی سال گزر چکے تھے۔ زندگی کے آخری مہینوں میں وہ نوستالجک تھے۔ 'اِسکلس تُونا'، سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم سے جنوب مشرق کی جانب 112 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ایک شہر، جہاں وہ رہتے تھے، وہاں کے پُژمردہ دنوں اور تاریک سرد شاموں کی تنہائیوں میں بے کسی کی تاب نہیں لاتے تھے۔ وہ رفتہ رفتہ اپنی گذشتہ فضاؤں میں قید لگنے لگے تھے۔ وہ اُن فضاؤں میں سانس لینا چاہتے تھے جو اس نے پیچھے چھوڑی تھیں۔ ایرانی نژاد ڈچ مصنف قادر عبداللہ، پاکستانی ناول نگار عبداللہ حسین کے ناولوں کے کرداروں اور جن فضاؤں میں کردار سانس لیتے تھے، وہ ان فضاؤں، بولیوں، منظروں میں کھو جانا چاہتے تھے۔ وہ ڈرامہ نویس و ناول نگار مرزا اطہر بیگ کے اکلوتے شاہکار ناول 'غلام باغ' میں آباد دنیا کی بُو باس محسوس کرنے کیلئے بیتاب تھے۔ یہ مرزا اطہر بیگ کی خوش قسمتی ہے یا بد نصیبی کہ وہ اپنے اکلوتے شاہکار ناول کی دھن میں دھنس گئے اور آخری ناول تک اسی دھن میں گاتے رہے ہیں۔ مرزا صاحب اگر سیاحت کی غرض سے بلوچستان جاتے، بلوچستان سے واپسی کا سفر براستہ موسیٰ خیل کرتے، بی ایل اے کی ایک گولی ان پر بھی اپنا ہاتھ صاف کرتی۔ اگرچہ وہ ساجد حسین کے پسندیدہ ناول نگاروں کی فہرست میں جگہ بنا چکے تھے لیکن یہ پسندیدگی ان کو بچانے کے کام نہ آتی کیونکہ وہ پنجابی ہیں۔

ہاتھ آنے والے عام پنجابی اور سپاہی کے درمیان فرق پر بی ایل اے بھائی اسے مارنے سے پہلے سر نہیں کھپاتا۔

تشدد بلاشبہ پسندیدہ عمل نہیں ہوتا۔ وہ کسی سپاہ کی بندوق کے زور کا نتیجہ ہو، کسی لشکر یا گینگ کا، کسی فرد کا فرد پر۔ پاکستان کے زمینی حقائق پر اگر ایک مختصر نوٹ لکھا جائے، اور جو متوقع مضمون سامنے آئے، وہ شاید کچھ یوں ہو گا؛

یہاں، جب تین چار افراد مل کر لوگوں پر دھونس جمائیں تو غنڈے، بدمعاش، گینگسٹر کہلائیں گے۔ جبکہ ایک بڑا لشکر علاقہ کے بنے بنائے آئینی و قانونی نظام کو بندوق کے زور پر قابو کر لے، من مرضی سے آزادانہ حکومتوں کا تیا پانچہ کرے، آئین تاحکم ثانی ردی کی ٹھوکری میں جا پڑے اور وہ خود آئین کہلائے، عوام کو صبح و شام شیشے سے نازک تر سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کے قطرے پلائے جائیں، محافظ نجات دہندہ کا چوغہ پہن لے، تو وہ حکمران قرار پائیں گے۔ لشکر اور گینگ دونوں کا کام عوام کو ڈنڈا پانچ کرنا ہے۔ گینگ کا قانون زبانی ہوتا ہے جبکہ لشکر کا غائبانہ لیکن دراصل دونوں کسی قانون کے پابند نہیں ہوتے۔

اس مختصر نوٹ میں حاشیہ پر لکھا ہو گا؛ مذمت کار اس وقت خاموش تھے۔ بلوچوں کو جب ڈرایا گیا۔ خوفزدہ کیا گیا۔ مارا گیا۔ ان کی تصویر کا ناک نقشہ کھینچ کر ان کے کردار سے ایک منشیات فروش، اسمگلر، ناخواندہ، دھوکہ باز، لالچی سردار، غدار، بکاؤ مال جیسا انسان ظاہر کیا گیا۔ جو تشدد کی مشق کیلئے محافظوں کی دسترس میں تھا۔ غصہ اتارنے کیلئے سب سے زیادہ موزوں اور دستیاب۔ وہ تشدد سے مر جاتا، لاش فالتو جانور کی طرح ویرانے میں پڑی ملتی، انسانی صفات سے محروم جسد۔ گرفتاری پر گھر واپسی کے امکان سے محروم غلام قیدی۔ اور اکثریت نے اپنی آسودہ حال خاموشی نہیں توڑی۔ یہ سب ان محافظوں کے ہاتھوں انجام پا رہا تھا جو ان کے اپنے تھے، ان ہی کی بولی بولتے تھے، ان جیسے ہی لگتے تھے جبکہ بلوچ ان کیلئے غیر اور اجنبی تھا۔

بلوچ لبریشن آرمی کی کارروائی پر بلوچ پارلیمانی سیاست دان بلاشبہ عام پنجابی مسافروں کے قتل کے افسوس ناک ناخوشگوار واقعہ پر، جو قابل مذمت ہے، رنجیدہ ہوئے ہوں گے، البتہ وہ قدرے خوش بھی ہوئے ہوں گے۔ سالمیت و سلامتی کی سیاست کے نتیجے میں ان کو عضو معطل بنا دیا گیا تھا۔ ان سے ان کے انتخابی حلقے چھینے گئے۔ ان کی دہلیز پر ڈرگ مافیا، ڈیتھ سکواڈ، مسلح گروہ بٹھائے گئے۔ کیچ مکران، خضدار، ڈیرہ بگٹی و دیگر علاقوں میں پارلیمانی سیاست دانوں کے مقابلے میں تشدد پسند اسلحہ بردار جتھوں پر دست شفقت رکھا گیا۔ آئین پاکستان پر یقین رکھنے والے یہ سیاست دان بے دست و پا کر دیے گئے تھے۔ ان کی سیاست کا جنازہ نکال دیا گیا تھا اور ان کے پاس مسلح گروہ نہیں تھے کہ ان آہنی ہاتھوں کو کاٹتے، مسلح جتھوں کا راستہ روکتے۔ بی ایل اے کے کیے پر انہوں نے سکھ کا سانس لیا ہو گا۔

علی احمد خاں، بی بی سی اردو سروس سے وابستہ، ایک تجربہ کار صحافی اور براڈ کاسٹر رہے ہیں۔ وہ اپنی یادداشتوں، 'جیون ایک کہانی'، میں لکھتے ہیں؛ 'ایوب خان اور فاطمہ جناح کے انتخابات کے فوراً بعد نیپ کی مرکزی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس ڈھاکہ میں ہوا۔ اس کانفرنس میں خیر بخش مری بھی آئے تھے۔ انہوں نے پارٹی کے کارکنوں کے ایک جلسے سے خطاب بھی کیا۔۔۔ تقریر تو اب مجھے یاد نہیں لیکن انہوں نے تقریر میں یہ سوال بھی کیا تھا کہ بلوچستان اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہا ہے، اس میں آپ ہمارا ساتھ دیں گے کہ نہیں؟ خیر بخش مری تو مر گئے لیکن یہ سوال بلوچستان آج تک پوچھ رہا ہے۔۔۔'

قصہ مختصر، یہ سوال خیر بخش مری نے بنگلہ دیش بننے سے پہلے کیا تھا۔

رزاق سربازی کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں۔