تربت ایک چھوٹا سا شہر ہے، جو چند ہفتوں کے وقفوں پر دو لاشوں کے ساتھ توجہ کا مرکز بنا، ایک لاش بلوچ شاعر مبارک قاضی کی تھی، جس کی اچانک موت نے فضا کو سوگوار بنا دیا۔ وہ بے قید و بند انسان تھا، بناوٹ اور دکھاوٹ کی روایت سے باغی۔ موت کے بعد، اُس کا آزاد منش مزاج، اس کا امتیاز بنا۔ دوسری لاش ایک نوجوان بالاچ بلوچ کی تھی۔ مقتول 29 اکتوبر کو گھر سے گرفتار ہوا۔ پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ 23 نومبر کو، ناگہاں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کی ماورائے قانون بربریت کے ہاتھوں دیگر 3 افراد کے ساتھ قتل ہوا۔ یہ قتل کی پہلی واردات نہیں تھی۔ بلوچستان، جہاں قانون اپنے ماتحت اہلکاروں کی اطاعت کرتا ہے، وقفہ، بلا وقفہ، وہاں قوانین سے ماورا اور طاقت کے سائے میں، قتل کی ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ بالاچ کے انکاؤنٹر میں قتل پر وہ غم جو پھٹ پڑنے کی کگار پر تھا، عوامی غصے، احتجاج اور تربت تا کوئٹہ لانگ مارچ میں بدل گیا۔
تربت مکّوران کے مشرقی حصے کا مرکز ہے، مغربی حصہ میں پہرہ جس کا نام ایرانی حکومت نے تبدیل کر کے ایرانشہر رکھ دیا، سب سے بڑا شہر ہے۔ سندھ اور ایران سے جس خطہ کی سرحدیں ملتی ہیں، بلوچ اس طول و ارض کو مکّوران کہتے ہیں۔ کیا پتہ کون سے ماہ و سال تھے، نوآبادیاتی مشینری میں کس قدر اونچے مقام پر فائز افسر تھا، جس نے اپنی چرب زبانی سے اس خطے کا نام مکّوران سے بگاڑ کر مکران کر دیا۔
نواب خیر بخش مری بلوچ سیاست دانوں میں سب سے واضح، صاف گو اور بے حد صابر سیاست دان تھے۔ ان کی عادت تھی، عام فہم لہجے میں نرم خوئی سے گفتگو کرتے، اپنا مفہوم و مطلب سننے والے پر واضح کرنے کیلئے، طویل وقفہ لیتے، بات چیت میں ٹھہراؤ کے اس لمحے میں کسی لفظ کے درست معنی پوچھتے، گفتگو میں شریک دوسرا شخص بھی کچھ کہہ سکتا تھا۔ پاکستان ایک خبرناک ملک ہے۔ روزمرہ کی گفتگو میں کوئی موضوع لامحالہ بات چیت کو اپنے اردگرد گھماتا رہتا ہے۔ سیر حاصل بات چیت ہو جائے، خوشگوار نتیجہ نکلے اور بات چیت اختتام کو پہنچ جائے، ممکن نہیں ایسا ہو۔ وہ صحافی جو روزناموں یا ٹی وی چینلز کا پیٹ بھرنے کیلئے کاٹ دار خبروں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، ان کو نواب خیر بخش مری مشکل اور پیچیدہ انسان لگتے تھے۔
وہ لڑاکا مرغے پالنے کا شوق رکھتے تھے۔ کبھی کبھار، ان مرغوں کی بانگ، نظریاتی بلندیوں پر مغرور پروازیں کرنے والے کارکنان کو، چونکا دیتی تھی۔ سیاسی زندگی میں، وہ، ننھی منی چیونٹی کی سخت کوشی کے قدردان لگتے تھے، جو گروہ در گروہ کسی مردہ جسم یا مرگ بہ لب دیوہیکل کسی بھی جسم پر حملہ آور ہوتی ہیں، سر راہ رکاوٹوں اور گروہی مشکلات پر قابو پانے کے راستے تلاش کرتی ہیں تا آنکہ اپنا مقصد حاصل نہ کر پائیں۔ نواب خیر بخش مری نے اپنی نادیدہ تنظیم کی شجر کاری چیونٹیوں کے صبر آزما مزاج اور سخت کوشی پر کی تھی۔
1970 کی دہائی میں بلوچ شورش جب شروع ہوئی، بالاچ مری کی عمر اس وقت 6، 7 سال تھی۔ وہ تین دہائیوں بعد پہاڑوں میں واپس لوٹے۔ کوہلو کاہان میں، جو اس کا آبائی علاقہ تھا، وہ ایک گروہ کے ہمراہ تھے، جس نے مسلح کارروائیوں کا اعلان کیا۔ پاکستان سے علیحدگی چاہنے والی حالیہ تحریک بظاہر کسی جماعت یا تنظیم کی پابند نہیں تھی۔ اس کا مرکز کچھ افراد پر مشتمل تھا۔ سیاست کے 30 سال سے زائد تجربات نے نواب مری اور اس کے بیٹوں کو بدل دیا تھا۔ ان کی مسلح سرگرمیوں نے، پاکستان کے زیر انتظام علاقے نہیں چھڑائے، آزاد علاقے قائم نہیں کئے، اپنے علاقوں میں سیاست کے نئے تجربے نہیں کئے بلکہ ذرائع ابلاغ جیسا اثر ڈالا، وہ گھر گھر اپنا پیغام پہنچانا چاہتے تھے، جس میں وہ کامیاب رہے۔ جو کچھ پہلے، نواب خیر بخش مری کہتا تھا، ان کا کہا، اب رائے عامہ بن گیا ہے۔
جواب میں ریاست نے حالات بدلنے، بہتری کے امکانات روشن کرنے سے انکار کیا۔ سیاست کے داؤ پیچ دھتکار دیے، سیاست دانوں کو اطاعت گزار بنا لیا گیا اور عوام کو دبانے کیلئے ایک روایتی پالیسی اختیار کی گئی جو اس سے پہلے انگریز حکمرانوں کی آزمودہ پالیسی تھی: جو سردار تمہارے سامنے سر خم کر دے، وہ اپنی حدود کا خدا ٹھہرے، لوگوں کی جان و مال کا یکتا مالک۔ اس سردار کو عبرت کا نشان بنایا جائے جو اپنے وقار، اپنی ضد، اپنی خودی کا سودا نہ کرے۔ وقار، ضد، خودی بہترین انسانی خصوصیات ہیں، جو، انسانوں کو دبا کر رکھنے والے، آمرانہ مزاج کو ہضم نہیں ہوتی ہیں لہٰذا بلوچ عوام کے خلاف جنگ طوالت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں، اختتام پذیر نہ ہونے والی زور زبردستیوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں، کم و بیش نواب خیر بخش مری کا نظریہ جیتتا نظر آ رہا ہے۔
بلوچستان میں واقعات کو دستاویز کی صورت میں محفوظ کرنے کی ثقافت کبھی مضبوط نہیں رہی ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں ناخواندہ ہیں، جو ماہ و سال، بہار و خزاں اور بارش و خشک سالی کی مناسبت سے بچوں کی پیدائش کے دن اور لمحات کو سینوں میں رقم کرتے ہیں۔ حاملہ عورتیں ایک دوسرے کی زچگی کے دن یاد رکھتی ہیں اور ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے ماہ و روز گاؤں کے بیش تر لوگوں کو یاد رہتے ہیں۔ یہ دستاویز پر ثبوت پیش کرنے والی دنیا نہیں ہے۔ یہاں انسان ایک دوسرے کے ساتھ گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ یک بہ یک، گننا کہ لوگوں کی کتنی بڑی تعداد ماورائے عدالت قتل ہوئی، آسان نہیں۔ یہ ادارہ جاتی کام ہے۔ لوگ غائب ہوئے۔ مسخ لاش بن کر بازیاب ہوئے۔ گمشدگی کی وبا نے لوگ نگل لئے، وہ گولیوں کا نوالہ بن کر قتل ہوئے۔
بالاچ بلوچ ان میں سے ایک تھا۔ اس کی لاش سے روح نے پرواز کرنے سے انکار کیا۔ وہ شہر کی سڑکوں، چوراہوں، سرکاری اداروں کے دروازوں پر انصاف کیلئے دستک دینے لگی۔ نومبر کی خنک اور دراز راتوں نے شہر کے باسیوں پر بستر درازی اور گرم لحافوں کی نیند حرام کر دی۔ تربت، دیہی علاقوں کے حصار میں، ایک ایسا شہر ہے، جہاں، عوام میں، سیاست کی اونچ نیچ میں اپنا حصہ ڈالنے کی عادتوں نے گہری جڑیں گاڑ لی ہیں۔ یہاں عورتیں دن بھر بلوچی کشیدہ کاری کا پُرمشقت کام کرتی ہیں۔ ان کو اپنی محنت سے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے، وہ اس کمائی سے اپنے بیٹوں، بھائیوں اور بچیوں کے کالجز کی فیسیں بھرتی ہیں۔ جو کوئٹہ ، کراچی اور دیگر شہروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ ان عورتوں کے پاس بچوں کے قتل کے بعد، ڈرنے، خوفزدہ ہونے یا ہار جانے کیلئے کیا باقی بچتا ہے؟
سمّی دین محمد، ماہ رنگ بلوچ، سعیدہ فیصل مینگل کے پاس زندہ رہنے کیلئے جو سرمایہ تھا، وہ چھین لیا گیا اور اب مزید کون سی انہونی ہے جو ان کو ڈرا دے؟ وہ کون سی آفت سے ڈریں؟ پاکستان کی سیاست اور ابلاغ کے ذرائع بلاشبہ ناانصافی کے خلاف ان کی آواز کو پسند نہیں کرتے۔ یہ آوازیں لوک داستانیں بنتی جا رہی ہیں جو نسل در نسل، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہیں اور دروغ پردازی کرنے والے میڈیا کی کہانیوں کی طرح بے بازگشت نہیں ہوتیں۔ ناانصافی کے ہر ایک واقعہ پر خود کو دہراتی رہتی ہیں۔ پاکستانی میڈیا ان کی آواز کو اہمیت نہیں دیتا، شاید ان کو بھی اس کی زیادہ پروا نہیں۔ انسانی گمشدگیوں کیخلاف اور مسخ لاشوں کیلئے انصاف مانگنے کی سرگرمیوں نے انہیں رائے عامہ ہموار کرنے کے گُر سکھائے ہیں۔ سیاست کی یہ سرگرمیاں ان کو بے پناہ بے خوف رہنما بنا چکی ہیں۔ وہ سوال کرتی ہیں، اور ان کو مطمئن کرنے کیلئے کسی سے اطمینان بخش جواب نہیں بن پاتا۔