'مزدور کا حق کھانا مسلمان کا کام ہے، کیا تم مسلمان ہوگئے ہو؟'

'مزدور کا حق کھانا مسلمان کا کام ہے، کیا تم مسلمان ہوگئے ہو؟'


آج سے کچھ عرصہ قبل گریس لینڈ میں تین ماہ کا عرصہ گزارنے کا اتفاق ہوا جہاں میری ملاقات کچھ بنگلادیش سے تعلق رکھنے والے افراد سے ہوئیں جو کہ گریس لینڈ کے شہری بن چکے تھے۔ ہر دوسرے تیسرے روز کی دوپہر ایک ریستوراں میں کھانے کیلئے جانا ہوتا اور وہاں کہ مالک سے میری اچھی سلام دعا ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم دونوں اچھے دوست بن گئے۔ ایک روز میں نے دوست سے عرض کیا کہ میں گریس لینڈ کے کئی سارے جزیرے گھوم چکا ہوں البتہ اب تک میں نے گریس لینڈ کا کیپیٹل ایتھنز جہاں میں اس وقت موجود ہوں ٹھیک سے نہیں گھوما تو اُس نے کہا چلو تمہیں میں ایتھنز کی سیر کرواتا ہوں اور اس طرح میرے بنگلادیشی دوست نے پلان بنایا اور مجھے ایتھنز کی تاریخی جگہوں کا دورہ کروایا۔ رسمی گفتگو  میں مجھے اُس دوست نے ایک واقعہ جو ایتھنز کے قریبی نواحی گاؤں میں پیش آیا تھا وہ سنایا جسے سن کر میں حیران رہ گیا۔

















واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایتھنز کے قریبی نواحی گاؤں میں چار سے پانچ پاکستانی شہری کھیتی باڑی کا کام سرانجام دیتے تھے اور اُن کا مالک ایک گریکی شہری تھا۔ لڑکے نئے نئے گریز لینڈ پہنچے تھے اور اُنہیں ایک پاکستانی شہری نے کام لگوا دیا تھا اور اُن میں سے تین دستوں کی جب بھی تنخواہ آتی تو وہ لوگ کھانے پینے کے پیسے نکال کر باقی رقم مالک سے کہتے آپ یہ رقم اپنے پاس رکھئیے جب بھی ہمیں ضرورت پیش آئے گی ہم آپ سے مانگ لیں گیں۔  ایسے کرتے کرتے تقریباً چھ ساتھ ماہ کی تنخواہ لڑکوں نے اپنے مالک کے پاس جمع کروائیں اور ایک دن جب اُنہوں نے مالک سے کہا کہ ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے جو ہم نے آپ کے پاس بطور امانت رکھوائی تھیں وہ ہمیں دیجئے تاکہ ہم اپنے آبائی ملک پاکستان بھیجوا سکیں۔


لڑکوں کی پیسے مانگنے کی دیر تھی کہ مالک نے تینوں کو کام سے ایک دو تین کر دیا دیا اور کہنے لگا جاؤ کوئی پیسے نہیں جس کسی کو بھی شکایات دینی ہو جاکر دو لڑکے پریشان مالک سے التجا کرنے لگے کہ ہمیں پیسے اپنے آبائی ملک اہلخانہ کو بھیجوا نے ہیں برائے کرم ہمارے پیسے واپس کر دیجئے۔ مالک نے بندوق نکالی اور لڑکے خوف کے مارے اُس وقت وہاں سے چلتے بنے لڑکوں نے مالک کے دوست سے رابطہ کیا اور اُسے تمام باتیں بتائیں کہ مالک ہماری امانتیں واپس نہیں کر رہا جس پر مالک کے دوست نے اپنے دوست کو فون کال ملائی اور پوچھنے لگا کہ کیا ماجرہ ہے جس پر مالک کے دوست کی اور مالک کے درمیاں میں تو تو میں میں ہوئی اور مالک نے فون بند کر دیا۔


مالک کے دوست نے لڑکوں کو مشورہ دیا کہ آپ پاس میں موجود چرچ جائیں اور وہاں موجود پادری کو اپنا معاملہ بتائیں شاید وہ آپ کی کچھ مدد کر پائے اور تینوں دوست ایک گریکی زبان بولنے والے دوست کے ہمرہ چرچ گئے اور وہاں پادری کو اپنا مسلۂ بیان کیا۔ پادری نے کہا آپ لوگ انتظار کیجئے میں کچھ دیر میں آتا ہوں اور جب وہ پادری واپس آیا تو اُس نے لڑکوں کو ایک خط تھمایا جو کہ گریکی زبان میں تحریر تھا اور کہا کہ جاکر اپنے مالک کے ہاتھ میں تھما دو لڑکے مالک کے پاس پہنچے اور وہ خط جو پادری نے دیا تھا وہ مالک کو تھما دیا خط پڑھ کر مالک نے لڑکوں سے کہا انتظار کیجئے میں ابھی آتا ہوں لڑکوں ڈر بھی رہے تھے کہ یہ کہیں ہمیں جان سے مار نا دے لیکن لڑکوں نے ہمت کی اور مالک کے آنے کا انتظار کیا۔


کچھ دیر میں مالک واپس آیا اور جتنی اُن کی امانتیں تھیں ناصرف واپس کیں بلکہ ساتھ میں کچھ پیسے اُپر بھی دیے اور کہنے لگا آج کے بعد مجھے تم لوگ یہاں نظر مت آنا لڑکے حیران رہ گئے کہ جس شخص نے ہماری نا سنی اپنے دوست کی نا سنی آخر خط میں ایسا کیا تھا جو مالک نے ہمیں پیسوں کے ساتھ ساتھ بخشش دیکر یہاں سے جانے کو کہا۔ ترجمان نے مالک سے سوال کیا کہ آخر اس خط میں ایسا کیا لکھا ہے جو آپ نے اتنی آسانی سے پیسے واپس کردیے اور وہ بھی بخشش کے ساتھ یہاں تک ہے آپ نے اپنے دوست کی بات بھی نا مانی جو آپ کا پرانا دوست ہے آخر خط میں ایسا کیا لکھا تھا؟


مالک یہی کہنے لگا کہ پیسے مل گئے بس یہاں سے روانہ ہو جاؤ ترجمان نے بہت زور دیا کہ لڑکے جاننا چاہتے ہیں کہ آخر خط میں ایسا کیا لکھا تھا بہت زور کرنے کے بعد مالک نے کہا اس خط میں لکھا ہے کہ


 ( مزدور کا حق کھانا مسلمانوں کا کام ہے ویسے کیا تم مسلمان ہو گئے ہو) بس اتنا کہا اور مالک وہاں سے چلتا بنا۔  یہ واقعہ سن کر مجھے حیرانگی بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ دنیا میں ہم مسلمانوں کو کس بری نظر سے دیکھا جاتا ہے اور سوچنے پر اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر دیکھا جائے تو اُس پادری نے جو بات لکھی وہ ایک حد تک ٹھیک بھی  ہے آج ہر کام اسلام کے نام پر ہو رہے ہیں مثلاً قتل چوری، مزدور کا حق کھانا  چغلی، غیبت دھوکے بازی، بچے بچیوں کے ساتھ مساجدوں میں جنسی زیادتیاں بچے اور بچیوں پر بہیمانہ تشدد مسلمان ہی کر رہے ہیں۔















مصنف جرمنی میں مقیم ہیں اور ایک انسانی حقوق کی تنظیم کے ساتھ منسلک ہیں۔ @SHussainShokat پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔