'ایندھن کی راکھ میں کب مِل گیا مزدُور': عالمی یوم مزدور کے موقع پر استحصال کا شکار مزدوروں کا نوحہ

 'ایندھن کی راکھ میں کب مِل گیا مزدُور': عالمی یوم مزدور کے موقع پر استحصال کا شکار مزدوروں کا نوحہ
 چُولہا جلا سکا نہ خود جل گیا مزدُور

اپنے ہی پسینے میں اُبل گیا مزدُور

 

سفاکیت کے نیچے جَبر و سِتَم میں جی کے

سانچے میں بُھوک کے خود ہی ڈھل گیا مزدُور

 

نہ پیٹ میں ہے کھانا نہ رات کو بچھونا 

بَس آسرے خُدا کے بَہل گیا مزدُور

 

ہے فرش زمیں اُسکا اور آسمان چھت ہے

دیوار و دَر سے عاری ہی پَل گیا مزدُور

 

مزدُور خود ہے بے گھر بچے بھی اُسکے بے در

نعمت کدوں کو تک تک مچل گیا مزدُور

 

ہے یہ خُدا کی بستی، انسانیت کی پستی

کاندھوں پہ بوجھ لادے ہے گَل گیا مزدُور

 

بَھٹّی چلا چلا کے ایندھن جلا جلا کے

قُربت میں رہ کے شُعلوں کی گُھل گیا مزدُور

 

محنت سے اپنی بھر دی مالک کی بھی تجوری

پھر لوٹ شام کو بھی بے پھل گیا مزدُور

 

مصرُوفِ عیش و عِشرت آقا کو کیا خبر ہے

 ایندھن کی راکھ میں کب مِل گیا مزدُور