جب لال لال لہرائے گا ۔۔۔۔ مزدوروں کا عالمی دن، غلامی، استحصال اور مزاحمت کی اصل حقیقت

جب لال لال لہرائے گا ۔۔۔۔ مزدوروں کا عالمی دن، غلامی، استحصال اور مزاحمت کی اصل حقیقت
جب لال لال لہرائے گا۔۔۔
تو ہوش ٹھکانے آئے گا۔۔۔

ہم سے لال لال کے اس نعرے کا مطلب پوچھنے والوں کو بتلانا مقصود ہے کہ آخر یہ لال ہے کیا؟ سرمایہ دار طبقہ اس لال کو خونی انقلاب سے تشبیہہ دیکر گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر آج (اسی لال رنگ کی بنیاد رکھنے والے)مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر اس لال کی تاریخی حقیقت اور اہمیت واضح کرنا ناگزیر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ رنگ مزدوروں کے انقلاب کا رنگ ہے جس کا ایک اہم تاریخی پس منظر ہے۔

اٹھارویں صدی کے وسط میں پہیئے کی ایجاد اور مغربی دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد، سرمایہ داروں کا مزدوروں پر استحصال بڑھ گیا۔ سرمایہ دار مزدوروں سے 12 سے 14 گھنٹے کام کرواتے مگر انتہائی کم تنخواہ دیتے۔ صنعتی مراکز اور کارخانوں میں مزدوروں کی بدحالی حد بلندیوں پہ پہنچ چکی تھی۔ ان زیادتیوں کے خلاف اس وقت کے سوشلسٹ نظریات ان استحصالی قوتوں سے ٹکرائے۔ سرمایہ داروں سے لڑنے کیلئے ان مزدوروں محنت کشوں نے ٹریڈ یونینز کی بنیاد رکھی۔ گویا مزدوروں نے لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ تنخواہوں میں اضافے اور کام کے دورانیے میں کمی کا مطالبہ کرتے ہوئے ان مزدوروں نے ہڑتالیں اور مظاہرے شروع کر دئیے۔

یکم مئی 1884ء کو مریکی ریاست شکاگو میں بسنے والےتمام مزدوروں اور محنت کشوں نے مکمل ہڑتال کی۔ اسی سلسلے میں 3 مئی کو شکاگو میں منعقدہ مزدوروں کے احتجاجی جلسے پر حملہ ہوا جس میں 4 مزدور ہلاک ہوئے۔ اس بر بریت کے خلاف مزدور پر امن احتجاج کیلئے سفید جھنڈے لیکرشیکاگو کی ہئی مارکیٹ سیکئیر ( Hey market square ) میں جمع ہوئے۔ پولیس نے مظاہرہ روکنے کے لیے محنت کشوں پر تشدد کیا ، اسی دوران ایک پولیس افسر ہلاک ہوا تو پولیس نے ان مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں بے شمار مزدور ہلاک اور درجنوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔

سفید جھنڈا تھامے مزدوروں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ اسی اثناء میں طوفانی بارش شروع ہوگئی اوربارش کے پانی اور مزدوروں کے خون سے ساری سڑکیں لال ہو گئی۔ سفید جھنڈے ان مزدوروں کے خون سے سُرخ جھنڈے بن گئے۔ صبح اٹھ کر تمام مزدوروں نے مرنے والے ان مزدوروں کے خون زدہ لال کپڑوں کو اپنے گھروں کی چھتوں پر لٹکا دیا۔ اسی دن سرخ یا لال رنگ سرمایہ داری کے خلاف ایک مزاحمتی استعارہ بن گیا۔

اس موقعے پر سرمایہ داروں کی محافظ حکومت نے دیگر مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسیاں دیں (حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں) ان رہنماؤں نے مزدور تحریک کے لیے جان دے کر سرمایہ دارانہ نظام کا انصاف اور بر بریت واضح کر دی۔ پھانسی لگنے سے قبل ان مزدورو رہنماؤں نے کہا کہ:
’’تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دباسکتے ‘‘

شاید انکی بات درست ثابت ہوئی،ان سرمایہ داروں کا خیال تھا کہ مزدوروں کے حقوق کیلئے اٹھنے والی تمام آوازیں ہمیشہ کیلئے دبائی جا چکی ہے مگر آج بھی اُن مزدوروں اور محنت کشوں کے خون سے مستعار لیا گیا یہ لال رنگ پوری آب و تاب سے دنیا بھر میں مزاحمت کا عَلم بلند کر رہا ہے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تمام جماعتیں اور تنظیمیں اس لال رنگ کو اپنا نصب العین مان چکی ہیں۔ اس تحریک سے جڑے تمام کامریڈذ مزاحمت کا یہ لال جھنڈا اٹھائے میدانِ عمل میں آچکے ہیں۔

یہ لال ان مزدوروں کا رنگ ہے جو اس دنیا کا 98 فی صد ہیں یہی وجہ ہے کہ جب جب لال لہراتا ہے تو وقت کے تمام فرعونوں کے جسموں پہ کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور ہر ملک کا اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقہ اس لال پرچم لہرانے والوں کو غدار اور باغی قرار دیتا ہے۔ یہ لال صرف ایک رنگ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو محنت کشوں کو کسی بھی ملک ، قوم ، مذہب ، جنس، رنگ اور نسل کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے۔

مزدوروں کے عالمی دن موقع پہ اپنے خون کی قربانی دینے والے اُن تمام محنت کشوں کو لال سلام۔

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔