سوشل میڈیا لکھاری عمر احمد کی بھی باری آ گئی

سوشل میڈیا لکھاری عمر احمد کی بھی باری آ گئی
آواز اٹھائے موت کی جو آرزو کرے
ورنہ مجال ہے کہ یہاں گفتگو کرے

ایک اور سر پھرا لاپتہ ہو گیا اور نجانے اس وقت کس حال میں ہوگا، جس نے حق گوئی اور بآواز بلند سچ بولنے کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔ عمر احمد ایک ایسا گمنام لکھاری ہے جو اپنی سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر ہر اس قدم کے خلاف برسرِپیکار نظر آیا جو کسی بھی باضمیر شخص کے خلاف اٹھایا گیا۔ سلمان حیدر کی گمشدگی ہو یا نواز شریف پر ریاست کی قدغن، گل بخاری پر ایذا رسانی ہو یا صحافی احمد نورانی پر تشدد، عمر ہمیشہ اس سیاسی منظر نامہ میں حق بجانب کھڑا دکھائی دیا۔

لیکن، آج جب وہ خود زیرِ عتاب و حراست ہے تو آوازوں نے جیسے چپ سادھ لی ہو، جیسے اہلِ کوفہ نے منہ موڑ لیا ہو اور ایک سفیرِ حسین اکیلا ہو کر اپنی ہلاکت کے انتظار میں ہو۔ عمر احمد کو 29 ستمبر کو کراچی سے پولیس نے حراست میں لے لیا اور ان پر الزام لگایا کہ آپ کا تعلق ایم کیو ایم لندن سے ہے اور ملزم سوشل میڈیا پر حساس اداروں کے خلاف پراپیگنڈا کرتا ہے۔

راقم السطور عمر کو کئی سالوں سے جانتا ہے، اس کے ٹوئٹر اور فیس بک کے صفحات بھی دیکھے جا سکتے ہیں جن پر ملکِ خداد پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کی گئی مگر ہاں اپنا اخلاقی و سیاسی وظیفہ سمجھتے ہوئے عمر کئی اور باضمیر لوگوں کی طرح اداروں کے ان اقدام کے ہمیشہ خلاف رہا جن کے بدولت رہی سہی جمہوری تمزید خطرے میں پڑ رہی تھی۔

عمر کا قصور یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ہندوستانی تاریخ اور ثقافت پر فخر کرتا ہے اور اس کو اپنے آپ کو مہاجرکہلانے میں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ امر تو ریاستی بیانئے کے خلاف ہے جو اسرار کرتا ہے کہ ایک خاص قوم اپنے آپ کو مہاجر کہنا چھوڑ کر صرف اور صرف مسلمان اور پاکستانی کہلوانا شروع کر دے۔

ہم سب کو معلوم ہے کہ عمر کے ساتھ اب کیا ہوگا اور کس کی ایماء پر اس کو حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس تو سوشل میڈیا درکنار، ہمارے گلی محلوں پر نظر نہیں رکھ سکتی۔ یہ کام تو انہی کا ہے جنہوں نے صحافت کا گلا گھونٹ دیا ہے اور اپنا بیانیہ پھیلانے میں اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں کہ ٹوئٹر، فیس بک اور اب تو واٹس ایپ پر بھی کڑی نظر رکھنے لگے ہیں۔ کہیں کوئی توہین آمیز بات نہ کر دے جس سے ان کے مذموم عزائم خطرے میں پڑ جائیں اورعوام جاگ جائے۔

عمر کا بھی وہی ہونا ہے جو حیات پریغال کا ہوا تھا۔ مہینوں زندان میں جہاں انصاف آزادی کی آس میں گڑگراتا رہے گا۔

شاید تشدد، ایذا رسانی، گالیوں کی بوچھاڑ اور اندھیرے قید خانے میں رہنے کے بعد عمر کو یہ عقل آ جائے کہ یہ وہ ملک نہیں جہاں حق مانگا جا سکتا ہو، جہاں ضمیر کی سن کر کچھ ظلم کے خلاف بات کرنے کی اجازت ہو۔

بقول جالب، یہ دیس تو اندھے لوگوں کا ہے۔ اور یہاں عمر جیسے چاند تاریک راہوں میں مارے جاتے رہے ہیں اورمارے جاتے رہیں گے۔