پاکستان میں ایک بار پھر خون کی ہولی کھیلے جانے کے دہانے پر ہے۔ کبھی اس ہولی میں خون احمدی برادری کا استعمال ہوتا ہے تو کبھی شیعہ کا۔ کبھی مسیحی حضرات کا تو کبھی ہندو بھائیوں کا۔ پاکستان کے لئے یہ ایک تہوار ہی تو ہے جو ورثے میں ہمیں ملا ہے، جو ہر کچھ سال بعد منانا ضروری ہو گیا ہے۔
آج کل کے حالات دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ خون کے پیاسوں کا اب کی بار ہدف شیعہ ہی ہیں۔ یہ نشانہ آسان ہوتا ہے۔ شیعہ آرام سے ہر شہر، ہر گلی مل جاتا ہے، کالے کپڑے پہنا ہوا ہوتا ہے تو نشاندہی بھی سکون سے ہوجاتی ہے اور تو اور اپنے امام باڑوں پر علم بھی لگائے رکھتا ہے جو دور سے ہی نظر میں آجاتا ہے کہ یہاں حملہ کرنا عین دینی ہے۔
پہلے یہ جاننا مشکل ہوتا تھا کہ کیوں ہر کچھ سالوں کی خاموشی کے بعد شیعہ سبزی و پھلوں کی طرح سر شہر کاٹے جاتے تھے۔ لیکن اب جدید مواصلاتی تکنیک کا دور ہے، دنیا کے ہر حصے کی خبر تک رسائی عام سی بات ہے تو بہت کچھ سمجھ بھی آجاتا ہے کہ کیسے مشرقِ وسطیٰ میں پتہ بھی ہلتا ہے تو اس کی آہٹ یہاں تک محسوس ہوتی ہے۔
اس سال محرم کے آغاز سے قبل ہی شیعہ حضرات کے خلاف محاز آرائی کی تیاری کر لی گئی تھی۔ شیعہ ذاکرین کی ایک فہرست تیار کی گئی جنہیں گرفتار کرنا شروع کیا گیا جس میں بزرگ علامہ حافظ تصدق حسین وغیرہ شامل تھے۔ تین محرم کو آصف رضا علوی کے خلاف کام شروع کیا گیا، ایف آئی آر کٹی اور دھمکی آمیز کال کر کے جان سے مار دینے کا کہا گیا۔ جس کے بعد انکو ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔
سب سے حیران کن واقعہ عاشور کے بعد ہوا جب صدیوں سے پڑھی جانے والی زیارتِ عاشورہ کے خلاف لوگوں کر سرگرم کیا گیا اور اور ضعیف العمر تقی جعفر کے خلاف مقدمہ درج کر کے چھاپے مارے جانے لگے۔ لگتا یہی ہے کہ احمد لدھیانوی و ارونگزیب فاروقی (جو کالعدم تنظیوموں کے سربراہ ہیں) تیار بیٹھے تھے کہ اس سال عاشورہ ہو اور وہ نفرت پھیلانے کا کام شروع کریں۔
بس اسی کے بعد سے ‘اسلام‘ کو بچانے کے لئے ریلیاں ملک بھر میں نکالی جارہی ہیں، جو کبھی کسی امام باڑے پر حملہ کرتی ہیں تو کہیں انکے شرکا دیواروں پر کھلم کھلا شیعہ کافر کی چاکنگ کرتے ہیں اور اعلانیہ انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب وہ شیعہ کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹیں گے بلکہ اب ان کے گلے ہی کاٹیں گے۔ اور اس سب کے دوران عوام کی ایک بڑی تعداد خاموشی تمائشی بنی رہتی ہے جب کہ ریاستی ادارے بھی دوسری طرف منہ پھیر لیتے ہیں۔
پچھلی بار 2010 اور 2015 کے درمیان پاکستان میں لا تعداد شیعہ حضرات کو نشانہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ یہ وہ ہی وقت تھا جب ملک شام میں داعش نے چڑھائی کی تھی اور امریکہ و سعودیہ بھی اس جنگ میں اپنے ہاتھ خون میں رنگ رہے تھے۔ اس وقت ضروری تھا کہ پاکستان میں شیعوں کا خون بہایا جائے تاکہ ایران، ملک شام، لبنان اور پاکستان میں شیعہ سامراجی قوتوں کے سامنے کمر بستہ نہ ہوجائیں۔ اس کے باوجود کوئٹہ، کراچی، پاراچنار اور گلگت سے شیعہ نوجوانوں نے شام اور عراق کا رخ کیا تاکہ وہاں پر قائم مقدسات کا دفاع کیا جاسکے اور داعش کا مقابلہ کیا جائے۔
پاکستان میں 2010 سے لیکر 2016 تک سولہ سو باسٹھ شیعہ مارے گئے جب کہ ستائیس سو تیس حضرات ایسے ہی واقعات میں زخمی ہوئے۔
مزید براں، شام میں خانہ جنگی کے باعث فروری 2012 میں حماس کے لوگ جو دمشق میں موجود تھے وہاں سے چل دئے جس سے دو پہلو عیاں ہوئے۔ اول یہ کہ فرقہ واریت کو فروغ ملا اور دوسرا یہ کہ شام اور حماس ( جو فلسطینی مزاحمت میں سرگرم رہی ہے) کے تعلقات شام سے ختم ہوئے جس سے شام و فلسطینیوں کو نقصان ہوا جب کہ اسرائیل کو فائدہ ہوا۔
اسی کے ساتھ ساتھ، حزب اللہ جس نے ہمیشہ فلسطینیوں کا ساتھ دیا اور حماس کو مشقیں بھی کروائیں اب شام میں مصروف ہوگئی اور حماس تک شاید ہی کوئی امداد پہنچا پائی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایران سے حزب اللہ کو جانے والی امداد (جو مزائلوں پر مبنی تھی) پر بھی اسرائیل نے شامی خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گولہ باری کی جس سے یہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔ یہ واقعہ مئی 4 کو 2013 کونیو یارک ٹائمز نے بھی رپورٹ کیا۔
ان حالات کے باعث اسرائیل وقت کے ساتھ ساتھ قوت یافتہ ہوتا چلا گیا اور فلسطینیوں پر ظلم و مصائب میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا۔ ظاہر ہے شام جیسا ملک اور حزب اللہ جیسی منظم تنظیم کی اب یہ صورتحال نہیں تھی کہ وہ بیک وقت اسرائیل سے بھی لڑیں اور سامراج کی پیدا کردہ داعش سے بھی۔
ان سارے حالات کا رشتہ پاکستان کی شیعہ عوام سے بھی جڑا ہوا تھا۔ اور اسی سبب پاکستانی شیعوں کو لگام دینے کے لئیے انکے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ دوسری جانب، شیعہ نوجوانوں کو حراست میں لے کر غائب کرنا شروع کر دیا گیا۔ لیکن اتنا شب خون مار لینے کے بعد بھی پاکستانی نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد عراق و شام گئی اور وہاں جاری خانہ جنگی میں حصہ لیا۔
اب ایک بار پھر مشرقِ وسطٰی کا منظر نامہ تبدیل ہونے جا رہا ہے۔ ابھی کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ ضرور دکھائی د ے رہا ہے کہ کسی نئے کھیل کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے۔ اسی سال امریکہ نے عراق میں حملہ کرکے ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی اور عراقی مقاومت کے سربراہ ابو مہندس کو قتل کردیا۔ یہ حملہ مشرق وسطی میں موجود تمام ہی مزاحمتی تحریک جو کسی نہ کسی طرح ایران اور حزب اللہ سے جڑی تھیں یعںی شام، عراق، یمن، فلسظین کے لئیے نہایت حیرانی کا سبب تھا۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ امریکہ اس حد تک بھی چلا جائے گا۔ لیکن جیسے ہم نے کہا کہ ایک بار پھر ایک نئے کھیل کا آغاز شروع ہونے کی تیاری ہے۔ یہ حملہ اس قدر حیران کن تھا کہ سعودیہ عرب جیسے ایران دشمن ملک کو بھی یہ کہنا پڑ گیا کہ امریکہ نے اس حملے کے حوالے سے ان سے مشورہ نہیں لیا تھا۔
اب حالیہ دنوں عرب میں ایک لہر اٹھی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات بحال ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت اور عرب نیشنل ازم کا قلع قمع۔ فلسطین کا مسئلہ اس تحریک کی ایک کڑی ہے جو یمن، شام، عراق، بحرین، ایران اور لبنان کو ملاتی ہے۔ ان سب کا آپس میں مظلومیت کا رشتہ ہے جو سامراج سے لڑتے لڑتے پیدا ہوا ہے۔ جس کوایک ایک کر کے توڑنا سامراج کے عزائم کا حصہ رہا ہے۔
آج اگر شام کی صورتحال کچھ مخلتف ہوتی اور خانہ جنگی نے وہاں ریاست کو کمزور نہ کیا ہوتا، اگر ایران نے اپنے کمانڈر کو نہ کھویا ہوتا، اگر عراق اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا، یمن محصور نہ ہوتا تو شاید اسرائیل کو یہ فتح حاصل نہ ہوتی۔ لیکن اسرائیل نے وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ بہادر کےطفیل یہ فتح حاصل کی ہے۔
پاکستان میں اب تک درجنوں ایسے جلوس نکالے جا چکے ہیں جہاں ببانگ دہل شیعہ حضرات کو کافر کہا گیا، ان کا بائیکاٹ کرنے کی تقلین کی گئی، انہیں مار دینے کے حکم صادر کیے گئے۔ اس کے باعث بڑے شہروں میں اتنا خوف پھیل گیا کہ پاکستان میں بسنے والے شیعوں نے اپنے پیاروں سے محرم کے دوران کالے کپڑے زیب تن نہ کرنے کی درخواست کرنا شروع کردی ہے۔ مقصد ایک بار پھر وہ ہی ہے کہ شیعہ برادری کو اسی ملک کے اندر ہونے والے مسائل میں اتنا پھنسا کر رکھا جائے اور ان کی آواز کو دبایا جائے۔
اس ساری کتھا کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ملک پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے بظاہر مشرق وسطی میں ظلم و ستم کرنے والوں سے ہاتھ ملائے رکھے ہیں۔ اب تک کسی ایک بھی ریلی کو روکے جانے کی کوشش نہیں کی گئی جو کہ ملکی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث بن سکتی تھیں، مگر دوسری جانب سرکار نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی بھی شیعہ تنظیم اس فرقہ واریت کے خلاف اپنے جلسے جلوس نہ نکالے۔ ایک شیعہ سربراہ نے جب ایک احتجاج کا انعقاد کیا تو نہ صرف اس کو بلا کر سرزنش کی گئی بلکہ کہا کہ اگر انہوں نے اس احتجاج کو منعقد کیا تو خلاف سوشل میڈیا پر ان کی اور ان کے خانوادے کی کردار کشی کی جائے گی۔
گذشتہ سال جب شیعہ برادری نے اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے دس روزہ دھرنے کا انعقاد کیا تھا تو افواج پاکستان کے ریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نے ایک نجی خبر رساں ادارے سے ان لاپتہ افراد کے بارے میں کہا تھا کہ شام یا عراق جاکر لڑنے والے نوجوان اور داعش میں شمولیت کرنے والے لوگ ایک ہی جیسے ہیں۔
عوام کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کو ہوا دینے میں بین الاقوامی حالات کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ کالعدم تنظیموں کا یک دم حرکت میں آجانا، بڑے بڑے جلسے جلوس منعقد کروانا، اور سوشل میڈیا پر ایک سوچی سمجھی مہم چلانا سب اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت شیعوں کو خوف و ہراس میں سانس لینے پر مجبور کیا جائے۔ یہ سب منظم طور پر استعماری طاقتوں کی ایما پر کروایا جاتا ہے اور یہ اکثر ہمارے ملکی اداروں کی خاموش رضامندی سے ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس بڑھتی ہوئی چنگاری کو، جو کچھ ہی وقت میں دھکتی ہوئی آگ میں تبدیل ہوسکتی ہے کیا شیعہ سنی ان سازشوں کو سمجھ کر مل کر بجھا پائیں گے؟