جبری گمشدگی سے مراد ہے کہ ریاست کے کچھ لوگ ہی لوگوں کو زبردستی غائب کرتے ہیں: جسٹس اطہر من اللہ

جبری گمشدگی سے مراد ہے کہ ریاست کے کچھ لوگ ہی لوگوں کو زبردستی غائب کرتے ہیں: جسٹس اطہر من اللہ
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد کی گمشدگی اور لا پتہ شہرویوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ پونے والے ساجد محمود کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دئیے اور کہا کہ عداکت یہ نہیں پوچھ رہی کہ شہریوں کو کس ادارے نے اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ 'لائیوسٹاک ڈیپارٹمنٹ نے لاپتہ افراد کو اٹھایا یا کسی اور نے'۔ انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے جبری گمشدگی کی تعریف کی اور کہا کہ ' جبری گمشدگی سے مراد یہ ہے کہ ریاست کے کچھ لوگ ہی لوگوں کو زبردستی غائب کرتے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ شکر ہے کہ ریاست یہ تو تسلیم کرتی ہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے۔معزز جج اطہر من اللہ نے کہا کہ 'گمشدہ افراد کی لاش ہی مل جائے تو تسلی ہو جاتی ہے مگر جبری گمشدگی جس کے ساتھ ہوتی ہے وہی اپنی تکلیف جانتا ہے'۔ چیف جسٹس نے برہم ہوتے ہوئے کہا کہ 'کسی کا پیارا غائب ہو جائے اور اس پر ریاست یہ کہے کہ ہم میں سے کسی نے اٹھایا ہے تو شرمندگی ہوتی ہے'۔ اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو عدالتیں کس لئے ہیں۔ انکا عدالتوں میں ٹرائل کیا جائے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو کہا کہ اس کیس کی تاخیر میں انکا کوئی تعلق نہیں ۔ جس پر عدالت نے کہا کہ اگر آپ بحث کریں گے تو ہم براہ راست عزیر اعظم کو نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔ تا کہ وہ یہاں آ کر ہمارا اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے سوالوں کا جواب دیں۔