سپریم کورٹ: ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار

سپریم کورٹ: ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار
سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اس کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کی درخواست مسترد کردی۔

مختصر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے آئین و قانون اور اپنے اختیار کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا، جس میں آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے گائیڈ لائن جاری کریں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے قومی اسمبلی این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخاب کے خلاف سے پی ٹی آئی امیدوار علی اسجد ملہی کی درخواست پر سماعت کی۔

آج ہونے والی سماعت میں تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی اور مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ہدایت کی کہ ضروری نوعیت کے قانونی نقاط بیان کریں، صرف ان دستاویزات پر انحصار کریں جن کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا۔

وکیل الیکشن کمیشن میاں عبدالرؤف نے کہا کہ کمیشن کے فیصلے میں منظم دھاندلی کا ذکر نہیں، فیصلہ قانون کی خلاف ورزیوں پر تھا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب اور دیگر حکام نے فون نہیں سنے، 13 پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ معطل رہی اور پورے حلقے میں فائرنگ کے واقعات ہوئے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے پولنگ اسٹیشنز کی گنتی نہیں کرنی۔

پی ٹی آئی امیدوار علی اسجد ملہی کے وکیل شہزاد شوکت نے کہا کہ پریزائیڈنگ افسران کے ساتھ پولیس اسکواڈ نہیں تھا، صرف ایک پولیس گارڈ پریزائیڈنگ افسر کے ساتھ تھا۔

پی ٹی آئی کے وکیل کے مطابق پریزائیڈنگ افسر نے کہا کہ نجی طور پر حاصل کی گئی گاڑیوں میں وائرلیس سسٹم نہیں تھا، انتحابی مواد پہنچانا اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر کا کام ہے، الیکشن کمیشن نے پریزائیڈنگ افسران کو ریکارڈ ساتھ لانے کا کیوں کہا؟

وکیل پی ٹی آئی کا مزید کہنا تھا کہ پریزائیڈنگ افسران سے تحقیات کرنا ضروری تھا۔ جو نہیں کی گئی، سمجھ نہیں آتا کہ الیکشن کمیشن کو کیا جلدی تھی؟

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ انتحابی مواد پریزائیڈنگ افسر ہی واپس لے کر آئے تھے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 20 پولنگ اسٹیشنز پر قانون کی خلاف ورزیاں تو ہوئی ہیں، فائرنگ سے 2 افراد قتل اور ایک زخمی ہوا، الیکشن کمیشن ڈسکہ میں مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہا۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ متنازع 20 میں سے 14 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج سے نوشین افتخار مطمئن تھیں، کل کہا گیا رینجر تعینات نہیں تھی جبکہ الیکشن سے 14 روز قبل رینجر تعیناتی کا ذکر ہوا تھا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق رینجرز صرف گشت کر رہی تھی جس پر ای سی پی کے ڈی جی لا نے کہا کہ 25 پولنگ اسٹیشنز پر رینجرز موجود تھی، لاپتا ہونے والے پریزائیڈنگ افسران کے پولنگ اسٹیشنز پر بھی رینجرز تھی۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پریزائیڈنگ افسران کو کون کہاں لے کر گیا تھا ان کی گمشدگی کے ذمہ دار سامنے آنے چاہیے، الیکشن کمیشن نے آئی جی کی رپورٹ کو غلط کہا، سمجھ نہیں آ رہا آئی جی کی رپورٹ کو غلط کس بنیاد پر کہا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گوجرانوالہ کے ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ 47 فیصد تھا جبکہ ڈسکہ میں ٹرن آؤٹ 46.92 فیصد رہا جسے کہا گیا کہ کم ہے، الیکشن کمیشن کا مؤقف غلط ہے کہ لوگ ووٹ ڈالنے نہیں آ سکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ این اے 75 میں 2018 کے الیکشن میں ٹرن آؤٹ 53 فیصد تھا، فائرنگ کے صرف 5 مقدمات درج ہوئے ہیں، مقدمات کے مطابق فائرنگ صرف 19 پولنگ اسٹیشنز پر ہوئی۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ 24 فروری کو دوبارہ پولنگ کا بیان حلفی دیا گیا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 24 کو بیان حلفی آیا اور 24 کو فیصلہ ہوگیا، آپ کو بیان حلفی پر دلائل دینے کا موقع ہی نہیں دیا گیا، دوبارہ پولنگ کے نوشین افتخار کے بیان حلفی کا جائزہ نہیں لیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام ہے شفاف اور منصفانہ انتخابات کرائے، وحیدہ شاہ نے پریزائیڈنگ افسر کو تھپڑ مارا تھا، پریزائیڈنگ افسران جس نے بھی غائب کیے اس نے انتخابی عمل کو دھچکا لگایا۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ میں 18 مارچ کو دوبارہ ضمنی انتخاب کا حکم دیا تھا تاہم بعد میں یہ تاریخ بڑھا کر 10 اپریل کردی تھی۔

بعدازاں 25 مارچ کو سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے ضمنی انتخاب کو ملتوی کرنے کا حکم دے دیا تھا۔