کالم نگار سہیل وڑائچ کے یکم دسمبر 2019 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالم بعنوان "تم کھڑے کہاں ہو؟" پر رب نواز بلوچ کا بلاول بھٹو کی جانب سے سہیل وڑائچ کو جواب۔
جیسا کہ آپ نے کہا میں کبھی مظفرآباد آزاد کشمیر میں ہوں، تو کبھی گلگت بلتستان میں، کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد میں ہوں۔ آپ ہی نے کہا میرا کسی نہ کسی موضوع پر روز بیان آتا ہے، پر نشر نہیں ہوتا، میرا بیان یا میرا بیانیہ جو مختلف شہروں سے جاری ہوتا ہے وہ نشر نہیں کیا جاتا یا نشر نہیں ہونے دیا جاتا۔ اگر نشر ہو بھی جائے تو اس بیانیہ کو بگاڑ دیا جاتا ہے، سنسرشپ پر لکھنے کے بجائے آپ نے اس کا الزام بھی مجھ پر لگا دیا۔حالانکہ کئی مواقعوں پر آپ بھی اس سنسرشپ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔
میں ریاست میں موجود ہوں، بلکل اپنے نانا شہید اور والدہ شہید کے بیانیہ کے ساتھ، جمہوریت کے ساتھ، آئین کی بالادستی کے ساتھ اس ملک کی کسی بھی حزب اختلاف کی جماعت کے کسی بھی لیڈرشپ سے زیادہ توانا اور بھرپور آواز کے ساتھ، میں حکمرانوں کو للکار رہا ہوں، طوطوں کی طرح نہیں، میری للکار شیر جیسی ہے، جو اس ریاستی جنگل میں تمام قانون شکنوں اور آئین شکنوں کے خلاف واحد توانا آواز ہے۔
قومی سیاست میں شکرے کی نہیں، دانائی کی ضرورت ہے۔ یہاں شکار نہیں کیا جاتا، یہاں شکاری کے جال میں پھنسے مظلوموں کی آواز بنا جاتا ہے، میں مظلوموں کی آواز ہوں، بلکل میرے نانا اور والدہ کی طرح۔ کیونکہ، میرے نانا اور پھر میری والدہ نے عقل و دانائی سے اس ملک میں شکاری کی جال میں پھنسے مظلوموں کو آزاد کروایا تھا۔
میں نے اور میرے خاندان نے خوشامد کی سیاست کو 52 سال قبل دفن کر دیا تھا۔ اگر خوشامد کرتے تو آج تک صرف ہم ہی حکومت کرتے، ہم نے ہر غیرآئینی قدم کے خلاف آواز اٹھائی، جس کی پاداش میں میرے ورکرز نے پھانسیاں اور کوڑے برداشت کیے۔ اگر خوشامد کرتے تو 52 سال تک کشمیر سے کراچی تک گلگت سے گوادر، پشاور سے پنجگور، راولاکوٹ سے راولپنڈی تک پسی ہوئے طبقے کی آواز اور ان کی امیدوں کا محور میں نہ ہوتا۔ ان کی آواز اور ان کیلئے واحد امید میں ہوں، جس کا مجھے ادراک ہے۔
میں کھڑا ہوں اصولوں کے ساتھ!
میرے نانا اور میری والدہ کی طرح میرا دل بھی جمہور کے ساتھ ہے، میں آج بھی اسی گھر کی آواز ہوں جہاں رات کو کھانا میسر نہیں، جہاں غریب کی آواز اعلیٰ ایوانوں تک پہنچانے کی ذمہ داری مجھ پر اور میری جماعت پر ہے، چونکہ ہمارے میڈیا کی زبان بندی ہے۔ شاید وہ آواز باقیوں کی طرح آپ تک نہیں پہنچ رہی ہے۔
رہی بات مہنگائی کی تو شاید کل آپ نے میری تقریر نہیں سنی۔ میں آج بھی انہیں للکارا، انہیں یاد کروایا کہ اس ملک کا کسان پس رہا ہے، کسان کو ملنے والی کھادیں تو 300 فیصد مہنگی ہوچکی لیکن کسان کیلئے گندم کی قیمتوں میں محض دو فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔
مصلحت کر کے اگر قابل قبول ہونا تھا تو عوام کی آواز بننے کے بجائے میں بھی رات کو ملاقاتیں کرتا۔ کالے کوٹ پہن کر کسی کے اشارے پر عدالت جاتا، کسی جمہوری حکومت کے خلاف سازش کرتا، ایسا نہیں کیا۔ اس کے بدلے میں مجھے محدود کرنے کی کوشش کی گئی لیکن میں اصولوں کے ساتھ کھڑا رہا، سمجھوتا نہیں کیا۔ مصلحت نہ کرنے کی وجہ سے جس شہر میں میرے نانا اور میری والدہ کو قتل کیا گیا، میرے والد کو بنا جرم قیدی رکھا جا رہا۔ مجھے بھی دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن میں ایک بار پھر حق کا علم اٹھائے اسی شہر میں انہیں للکارنے آ رہا ہوں۔ جہاں میرے نانا کو رات کے اندھیرے میں اور میری ماں کو دن کی سویرے میں قتل کیا گیا۔ اسی شہر میں اسی جگہ انہیں للکارنے آرہا ہوں، آپ کو بھی دعوت ہے، آپ آئیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ، بینظیر کا بیٹا، آصف علی زرداری کا بیٹا، اُن کے سامنے کھڑا ہے، حق کا علم تھامے بنا کسی مصلحت کے بغیر کسی اقتدار کی لالچ کے۔
مجھے تو یاد ہے۔ شاید آپ بھول گئے ہیں کہ دولخت ہوئے ملک کو سنبھالنے والے بھٹو نے آئین دیا۔ 90000 قیدی چھڑائے۔ ملک کو ایٹمی ٹیکنالوجی دی۔ تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور دیگر تمام شعبوں میں انقلابی اقدامات لانے والے بھٹو کو بدلے میں کیا ملا؟ اس کا تذکرہ کرنا تھا جو شاید آپ بھول گئے۔
بھٹو صاحب نے جس محنت سے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ۔ 11 سال میں اس ملک کو ڈکٹیٹر نے روند ڈالا تھا، مسلسل 11 سال نفرت کے بیچ بوئے گئے، 11 سال کی اندھیری راتوں کے بعد محض 2 سال کیلئے اُجالا آیا تھا، ان 2 سال میں ہوئے انقلابی اقدامات کا تذکرہ ہوجاتا تو اچھا تھا۔
میرے نانا اور میری والدہ نے مصلحت نہ کی جان دیدی، میرے والد نے مصلحت نہ کی آج بھی بنا جرم کے قید ہے۔ میرے ماموؤں نے مصلحت کو ٹھوکر مار کے جام شہادت نوش کیا، میں کیسے مصلحت کر سکتا ہوں۔ میں کیسے اقتدار کی خاطر سیاہ حروف سے لکھی جانے والی تاریخ کو پسند کروں گا۔ میرے خاندان نے سنہری حروف چُنے ہے اور شاید ہم سب کو یہ گھٹی میں گھول کر پلائے گئے ہیں۔ آپ یقین کریں بی بی شہید کا بیٹا جو تاریخ سنہری حروف میں لکھی گئی ہے انہیں صفحوں میں نظر آئے گا۔
مجھے یاد ہے تیسری دنیا کا خواب میرے نانا نے دیکھا، تیسری دنیا کا خاکہ بھی پیش کیا، اسی کی پاداش میں اسے قتل کر دیا گیا، میں کیسے سکون کی زندگی کا انتخاب کروں، ایسا ممکن نہیں، یہ ناممکن ہے کہ میں اقتدار پرستوں کی لسٹ میں اپنا نام درج کراؤں، اگر ایسا کرتا تو آج میں خاموش ہو جاتا، میرا ٹویٹر خاموش ہو جاتا، میں کسی مظلوم کیلئے آواز بلند نہ کرتا، لیکن میں آج بھی ان کے سامنے کھڑا ہوں۔
میں دھرنے میں شامل تھا۔ کراچی سے اسلام آباد تک، میں دھرنے میں آخری دن تک شامل رہا، میری تمام جماعت ہر لیول پر شامل رہی، ہاں! میں اس وقت شامل نہیں رہا جب مذہب کو استعمال کیا گیا، میں مذہب کارڈ کے خلاف ہوں، باقی مصلحتیں نہ بھٹو نے کیں اور نہ ہی بھٹو کی جماعت مصلحتیں کرنے کی عادی رہی ہے، بھٹو کے ترکے کے رکھوالے اسے ڈوبنے نہیں دیں گے۔ اسلام آباد ہو یا روالپنڈی کا کوفہ ہم کسی گیم کے کھلاڑی نہیں، آفرز کے باجود ہم کسی کی گیم میں شامل نہیں، ہم اس گیم کے کھلاڑی کیسے ہو سکتے ہیں جس میں مصلحت ہو، ہمارا مقصد ہے " راج کرے گی خلق خدا" کیونکہ ہم جان دینے والے حسینی ہیں۔
ہم سرخ انقلاب پر آنے سے پہلے ایک انقلابی نعرہ جو پشتون تحفظ موومنٹ کا تھا، اس پر بھی آئے تھے۔ پورے پاکستان میں سوائے بھٹو کے نواسے کے کوئی ایک ایسا سیاستدان بتائیں جس نے پشتون تحفط موومنٹ کیلئے آواز بلند کی، پشتونوں کو پہچان صدر زرداری نے دی اور پشتونوں کیلئے ایک بار پھر آواز میں بنا تھا، جس کیلئے کہا گیا آپ ملک دشمنوں کے ساتھ ہیں۔ ہمیں غداری کے سرٹیفکیٹ دیے گئے۔ تب بھی خاموش نہیں ہوئے، اس کے علاوہ کوئی ایسا سیاستدان یا سیاسی جماعت نے آج سے دس برس قبل جب سندھی ثقافت (جو صدیوں پرانی ہے ) پر فقرہ بازی ہوئی، اس وقت جب صدر زرداری سندھی ٹوپی پہنے سری لنکا گئے تو سندھی ٹوپی پر اعتراض ہوا، اس ثقافتی شناخت کیلئے کسی جماعت کسی سیاستدان نے آواز نہیں اُٹھائی، بلکہ اس سے پہلے جب پاکستان پر مشکل ترین دور تھا تو اس وقت پاکستان کھپے کا نعرہ کس نے لگایا تھا۔
خواتین کے حقوق ہوں یا خواتین کو بااختیار بنانا، ملک کی پہلی، اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم، پہلی اسپیکر قومی اسمبلی، پہلی گورنر، پہلی اقلیتی خاتون سینیٹر، پہلی وزیر خارجہ وغیر یہ اعزاز میری جماعت کو حاصل ہیں۔
آپ ہمارے لیے بہت قابل احترام ہیں، آپ جمہوریت پسند ہیں، آپ روشن خیال صحافی ہیں، آپ انسانی آزادی کی آواز اٹھانے والوں میں سے ہیں، اعلیٰ پائے کے قلم کار، دانشور و تاریخ دان ہیں لیکن آپ بار بار سوتیلا پکار رہے ہیں، جو کہ انتہائی برا عمل ہے۔ وہ سوتیلا نہیں وہ Son of Soil ہیں، وہ سندھو ساگر کا بیٹا ہے، سندھو ساگر جس کی کوکھ سے اند (ہند) نے جنم دیا، بار بار لفظ سوتیلا کا استعمال مجروح کر رہا، آپ نے جسے سوتیلا کہا وہ کسی سے بھیک نہیں مانگ رہا، وہ کسی سے این آر او نہیں لے رہا، وہ کہتا ہے جرم ثابت کرو یا معافی مانگو۔ جان دے سکتا ہے وہ جھک نہیں سکتا، میرا ٹویٹر خاموش نہیں، میرا بیانیہ نہیں بدلا، میری اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس میں کل بھی شریک رہا، لیکن مصلحت کرنے والے شاید شریک نہیں تھے۔ جن کا تذکرہ کرنا آپ بھول گئے اور کچھ سوالات جو شاید دوسروں سے پوچھنے تھے مجھ سے پوچھے جارہے ہیں۔
میں اور میری آواز ہر مظلوم کی محکوم کی آواز ہے، میری آواز خواتین ہو یا مرد اساتذہ ہو یا شاگرد سب کی آواز ہے۔ میں ہر فورم پر ہر ناانصافی کے خلاف بولا ہوں، میں سلیکٹرز کے خلاف بولا ہوں، سلیکٹڈ کے خلاف بولا ہوں، میں معیشت کیلئے بولا ہوں، میں اٹھارہویں ترمیم کیلئے بولا ہوں، میں سماجی ناانصافی کیلئے بولا ہوں، میں سنسرشپ کے خلاف بولا ہوں، میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بولا ہوں، میں مذہبی رواداری کیلئے بولا ہوں، میں تمام مکتب فکر کیلئے بولا ہوں، میں سب سے بڑھ کر انسانیت کیلئے بولا ہوں۔