ایک خواب نیند میں جاگا...ایک خواہش دل میں بیدار ہوئی۔ کوئی محبوب صفت چہرہ جو کسی اوٹ میں چھپا ہوا تھا اُس سے ملنے کی دل میں امنگ ہوئی۔ میں زندگی سے ہمکلام ہونا چاہتا تھا۔ لفظوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔واقعات،حادثات سب افسانے،یہ کائنات افسانوں سے بنی ہے گویا۔ محض ایک قیاس۔جب سارے گلاب کھل اُٹھے تو ان میں ایک گلاب کا پھول کچھ الگ اپنی ندرت دکھا رہا تھا۔ مسکراتا ہو ا پھول جگمگاتا ہوا خیال۔
رُت بدل رہی تھی۔ ووگن ویلیا کی بیل کسی درخت سے لپٹی ہوئی کوئی پیغام دے رہی تھی۔ زندگی کا خلجان سمجھ سے بالا تر تھا۔ بے کار دن بے کار راتیں بے سود انتظا۔ بارش کے بعد آسمان پر ایک ست رنگی سی بن چکی تھی۔ جس کے رنگوں میں وہ کھویا ہوا تھا۔ ایسے میں ایک ہاتھ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں نے چونک کر دیکھا.....گھنگھریالے بال...نقرئی مسکراہٹ اور دل رُبا لہجے میں وہ بولا۔”میں شیراز راج ہوں“ یہ خبر تھی یا اطلاع۔ بہرکیف میں نے اسے خوش آمدید کہا۔ یہ کون سا دن سال اور مہینہ تھا کچھ یاد نہیں ہے۔ پہلے اس نے ایک سوال پوچھا..ایک گیت سنایا اور پھر ایک قہقہہ لگایا اور پھر ہم دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پیادہ پا لاہور آوارگی کے لئے چل نکلے۔
میں اس کی شاعری کے حوالے سے کوئی ”موازنہ انیس و دبیر“ پیش نہیں کرنا چاہتا۔ وہ غالب کے ’اندازبیان اور‘سے کنی کترا کے سرہانے میر کے لب بستہ دھونی رماکے بیٹھ گیا تھا۔ وہ نقادوں کے کبھی ہاتھ نہیں آیا۔اس کی شاعری دیباچوں،فلیپوں اور فنون و نقوش کی بھی محتاج نہیں رہی ہے۔ اس کے اشعار ایک خودکلامی ہے۔ سرگوشی ہے۔ جہانِ حیرت ہے۔ میں اگرچہ اس کے پہلے مجموعہ کلام ”آئینے کا بھید“ کا ناشر ہوں۔ لیکن میں نے اس کی شاعر ی اس کے یہاں سے جانے کے بعد پڑھنا شروع کی ہے یہ ایسے ہی ہے کہ جب آپ ایم اے کرچکتے ہیں تو پھر کسی کالج میں داخلہ لیتے ہیں یا نصابی کتب سے رجوع کرتے ہیں۔ مجھ پر کبھی انکشاف ہی نہیں ہوا کہ وہ شاعر ہے۔ ہم دونوں کا شوق موسیقی رہا ہے۔ وہ خود بھی گاتا ہے۔ انگلیوں ہی سے ساز بجاتا ہے۔
اس کی کتاب ”آئینے کا بھید“ کا انتساب کچھ یو ں ہے۔
”لعل شہباز قلندر کے نام
می دانم کہ آخر چوں،د م ِدیدارمی رقصم“
وہ پہلے مجموعہ کلام کی اشاعت کے بارے میں یہ توجہیہ پیش کر تا ہے
”یہ کتاب دراصل خودفہمی کی ایک کوشش ہے جو مہاجرت کا لازمہ ہوتی ہے۔ ادھیڑ عمری میں جبری مہاجرت دل کا جو حشر کر تی ہے،اس میں یادوں سے کسے مفر ہے۔ یہ کتاب ایک پراجیکٹ ہے خود کو یکجا کرکے دیکھنے کا۔ یوں سمجھئے کہ پردیس کی یخ بستگی میں جو تہہ خانہ تعمیرکرنا ہے،اُس کا مٹی گارا ہے یہ کتاب۔“
سورج کی سنہری کرنیں جب کسی شفاف جھیل پر اترتی ہیں تو اس کا رنگ کسی محبوب کے عارض و لب کی مانند چمک اٹھتا ہے۔ پھولوں پر دمکتے ہوئے شبنم کے موتی،ہواؤں کی گنگناہٹ۔پھولوں اور پتوں کی سرسر اہٹ کو وہ اپنے قلم کی روشنائی بنا کر اپنے خیال کو لفظوں کا روپ دیتا ہے۔ ابتدائے عشق میں وہ دن بھر کام کاج کی تلاش میں نکلتا تھا۔ قلم مزدوری کرتا اور سرد یا ملائم راتوں میں اپنی ادھوری نظمیں اور غزلیں مکمل کیا کرتا تھا۔ اُس نے کبھی ہجر کی راکھ یا وصال کے پھولوں کا قصیدہ نہیں لکھا ہے۔ ایم اے او کالج میں اُس نے جماعتیوں سے پنگا لیااور پرنسپل تک کو ’طرف داری‘کرنے پر للکارا تھا۔ موصوف نے حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری کے لئے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو ایک نکتہ چین نے اعتراض اٹھادیا کہ یہ سیسل شیراز راج ہے یہ حلقے کا سیکرٹری نہیں ہوسکتا تو ایک ستم ظریف نے اس معترض کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ اگرشیرازراج آپ کی باجی ریحانہ سے خوش گپیاں کر سکتا ہے تو حلقے کا سیکرٹری بھی ہو سکتا ہے۔ مزید اسے سمجھایا جاؤ محمد بن قاسم اپنا کام کرو۔
’دل میں ہر داغ ہے بجز داغ ندامت‘ کے فخر کے ساتھ وہ زندگی کا سفر کبھی میانہ روی تو کبھی جذباتیت کے ساتھ طے کر تا رہا۔ مگر اس کی روح پر اس وقت چرکا لگا جب ایک ناکتخدا دانشور وجاہت مسعود نے اس کے بارے میں کوئی درفنطنی چھوڑ دی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان کی سول سوسائٹی کو کچھ ’غازہ‘میسر تھا اور شیراز راج جیسے نوجوان جو الفاظ کو منقلب کرنے کا ہنر جا نتے تھے ان این جی او زادوں کو بہت مرغوب تھے۔ ۔ سو وجاہت ایک ایسا شخص ہے کہ اس اندر کب فرعون کروٹ لیتا ہے اور کب موسیٰ بیدار ہوتا ہے اس کا اسے بھی کچھ پتہ نہیں ہے۔محترم ظفراقبال نے اس کے بارے میں ہی کہا تھا کہ
کرتا ہو ں توڑ پھوڑ کراتا ہوں توڑ پھوڑ
پھر تھوڑی اور اس میں ملاتا ہوں توڑ پھوڑ
بات آئی گئی ہوگئی....دوستوں کے سمجھانے بجھانے پر شیراز راج سب کچھ بھول گیا اور اپنے آپ میں مگن ہو گیا بطور فن کار اس کا نظریہ کیا ہے میں یہاں اس کی ایک معرکتہ الآرا نظم پیش کرتا ہوں
پوکھران سے چاغی تک
یہ کیسی روشنی چمکی
سرحد افق جس نے
مری آنکھیں جلا ڈالیں
مری آنکھوں میں سپنے تھے
گلابوں میں بسے رنگوں رچے صحنوں جیسے
صحنوں میں برستی جھلملاتی بارشوں کے
بارشوں میں
کاغذی کشتی پہ انجانے جزیروں کے لیے
خوشبو بھری سانسوں کا تحفہ بھیجتے
معصوم بچوں کے
مری آنکھوں میں سپنے تھے
مری آنکھیں جلا ڈالیں
یہ کیسی خامشی اتری سر شہر صدا جس میں
چٹختے بام ودر،گرتی فصیلوں
کرچیاں ہوتے دریچوں میں بپا
شور قیامت سے بھی سناٹا نہیں جاتا
جھلستے بازووٗں،جلتے پروں کے ساتھ اڑتی
آشیانہ ڈھونڈتی چڑیا سے
اپنا پیٹر پہچانا نہیں جاتا
مری پوریں پگھلتی ہیں
مگر چیخا نہیں جاتا
یہ کیسی آگ ہے جس میں
ازل کی دائمی یخ بستگی میں
منجمد کہسار جلتے ہیں
صحیفوں میں رقم افکار جلتے ہیں
بجھا سورج نہیں جلتا
اندھیرا کم نہیں ہوتا
یہ کیسی روشنی ہے؟
اب جہاں قوم اس’ایٹمی آتش بازی‘ پر خوشیوں کے شادیانے بجا رہی تھی، وہاں حضرت شیراز راج ماتم کر رہے تھی ۔ چاغی ایک ’مقدس جگہ‘قرار دے دی گئی تھی۔چاغی پرکئے گئے اس ایٹمی’جواب آں غزل‘ کے دن کو ”یو م تکبیر“ کا نام دے دیا گیا،اور آج کے ایک ”اشتہاری سیاستدان“ کے اوصاف خمید ہ میں یہ کارنامہ سنہری حروف سے بزعم خود درج کر دیا گیا ہے۔ اس سے پیشتر کہ شیراز راج کی اس نظم پر ریاست کا عتاب نازل ہوتا اور اسے اس کی نوحہ گری پر کڑی سزا ملتی،سرحد کے دونوں جانب کے امن پسند اس کی ڈھال بن گئے۔ سو وہ ترقی پسند یا روشن خیال جیسے برانڈز کہیں الگ تھلگ ایک امن پسند ہے،فاختہ کندھے پر بٹھائے امن کے گیت سنا تا آیا ہے...یہی اس کا نظریہ ہے۔ ذہنی اور فکر ی آزادی حاصل کرنے کے لیے اس نے برسوں کے گیان کے بعد یہ وجدان حاصل کیا ہے،کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دھرے پر چلتے رہنا پس ماندگی ہے سو اس نے اس دائرے کے سفر کو توڑ دیا
اب میں نے ایک دُ گ دار سگریٹ سلگایا ہے تم خود تو ’مطہر‘ ہوگئے ہوسب کچھ تیاگ کر کسی اونچے استھان پر براجمان ہو۔میں دیکھتا ہوں........
ایک ٹھنڈا میٹھا چشمہ گیت سناتا ہو ا بہہ رہا ہے اور کچھ تشنہ کام اوک بھر کر پانی پی رہے ہیں اور ا س کے کنارے پر ایک جھکا ہوا درخت جسکی ٹہنیاں گھنگریالے بالوں کی طرح ہیں اور پر بسیرا کر تی ہوئی چڑیاں جب چہچہاتی ہے تو کوئی مانوس مسکراہٹ سی فضا میں بکھر جاتی ہے۔ سینکڑوں گیت سنائی دیتے ہیں۔اس جھکے ہوئے درخت کی چھاؤں تلے کتنے مسافر بیٹھے ہیں...میں بھی اس کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا.اگر یہ ٹھنڈا میٹھا چشمہ اور جھکا ہوا درخت نہ ہوتا تو میری زندگی اس کتاب کی مانند ہوتی جس کے تمام اوراق خا لی ہوتے میں نے اپنا آخری دُگ دار سگریٹ بجھایا اور مال روڈ کی طرف چل نکلا۔
یہ مضمون جب ختم کرچکا تو حسنین جمیل نے کہا کہ یہ دیکھو ماروی سرمد نے شیراز راج کے دواشعار ٹویٹ کئے ہیں.....
یہ گیت کیا ہے جو کو ن و مکان میں گونجتا ہے
میری دعا سے بھی مدھم صدائے کن فیکو ں
فنائے مرگ میں ہیں،انتہائے مرگ میں ہیں
آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
میں نے ایک قہقہہ لگایا....حسنین جمیل نے پوچھا،ہنس کیوں رہے ہو؟میں نے کہا میرا یار شیراز راج کس صفائی اور چالاکی سے ’دامن یوسف‘بچا کر لے گیا تھا.....زلیخا آہ و بکا کر تی رہ گئی...
(جاری ہے)