اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے گمشدہ صحافی و بلاگر مدثر محمود نارو کے بازیابی کیس کا حکمنامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں جبری گمشدگیوں کا وجود ناقابل برداشت ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کا تحریری حکمنامہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا رواج کافی عرصے سے موجود ہے اور جبری گمشدگیاں درحقیقت انسانیت کے خلاف جرم ہیں۔
تحریری حکمنامے کے مطابق آئین کے تحت ضمانت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سب سے گھناؤنا عمل ہے جبکہ جبری طور پر گمشدہ مدثر محمود نارو صحافت کے پیشے سے منسلک تھے۔
حکمنامے کے مطابق درخواست میں مدثر نارو کو مبینہ طور پر ریاستی اداروں کے اہلکاروں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں جس کے بعد مدثر محمود 19 اگست 2018 کو لاپتہ ہو گیا تھا اور متعلقہ ریاستی عہدیداروں نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کے مطابق جواب نہیں دیا اور اس کی ساتھ ساتھ جبری گمشدگیوں پر کمیشن کی طرف سے کارروائی کا آغاز ایک فوجداری مقدمہ ایف آئی آر نمبر 208/18 کے تحت تاخیر سے ہوا۔
حکمنامہ میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے مطابق جے آئی ٹی کارروائی سے متعلق انہیں آگاہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کی رپورٹ فراہم کی گئی اور ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گمشدہ شخص کے والدین ناقابل تصور درد اور اذیت سے دو چار ہیں اور مدثر محمود اپنے بیٹے کی حیثیت کے بارے میں بھی نہیں جانتے۔
حکمنامے کے مطابق لاپتہ شخص کی اہلیہ کا ایک سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔ وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول تمام ایجنسیوں کے مطابق مدثر محمود کی جبری گمشدگی میں ملوث نہیں ہیں جبکہ مدثر محمود کی اہلیہ صدف چغتائی نے ایک درخواست جمع کرائی جس میں بتایا گیا ہے کہ مدثر محمود ایبٹ آباد میں کسی خفیہ ایجنسی کی تحویل میں ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے حکمنامے کے مطابق اس کیس میں حکام کو طلب کرنا فضول کی مشق ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی رپورٹس پیش کر چکے ہیں اور ملوث نہ ہونے کا موقف اختیار کر چکے ہیں جبکہ دوسری جانب ایک شہری 3 سال پہلے لاپتہ ہو گیا تھا، کمیشن کے سامنے طویل کارروائی بے نتیجہ رہی۔
حکمنامے کے مطابق ریاستی ایجنسیوں نے عوامی اداروں کے تحت فرائض اور ذمہ داریوں کے مطابق جواب نہیں دیا اور ریاست اپنے شہری کی حفاظت یا اس کے ٹھکانے کا پتہ لگانے میں ناکام رہی جبکہ تین سال کے بعد ریاست اس کی ایجنسیوں اور عوامی اداروں کی ناکامی ابھی تک موجود ہے۔
حکمنامے کے مطابق لاپتہ شخص کے لواحقین کے ساتھ بنیادی حقوق کے مطابق سلوک نہیں کیا گیا اور ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ ریاستی عہدیداروں کا طرز عمل قانون کی حکمرانی کا مذاق ہے کیونکہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے لیکن افسوس کہ لاپتہ شخص اور اس کے چاہنے والوں کو تحفظ نہیں دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکمنامے کے مطابق وفاقی حکومت درخواست گزار اور عزیزوں کو لاپتہ شخص کی حیثیت سے آگاہ کرے کیونکہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاپتہ شخص کے لواحقین کو یہ دکھائے کہ ریاستی ادارے لاپتہ شخص کے اغوا میں ملوث نہیں ہیں۔
حکمنامے کے مطابق انسانی حقوق کے وزیر اور سیکرٹری داخلہ عدالتی حکم پر پیش ہوئے تھے اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے جبری گمشدگیوں کی لعنت سے نمٹنے کے لیے اقدامات کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا ہے جبکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق لاپتہ افراد کے والدین اور بچے کی ملاقات آئندہ سماعت سے پہلے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کرائیں۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ وفاقی کابینہ وزیر اعظم اور ان کے ارکان کے سامنے رکھا جائے اور وفاقی کابینہ ذمہ دار اداروں اور سرکاری ملازمین کا پتہ لگائے گی۔
حکمنامے کے مطابق آئندہ سماعت تک لاپتہ شخص کو اس عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا ہے تو اٹارنی جنرل پیش ہوں اور رجسٹرار آفس کیس کو دوبارہ سماعت کے لئے 13 دسمبر کے لئے مقرر کریں جبکہ رجسٹرار آفس اس حکم نامے کی کاپی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق اور سیکرٹری وزارت داخلہ کو تعمیل کرایا جائے۔