'کاغذات نامزدگی، ووٹرز لسٹ اور نہ قواعد کی کاپی؛ PTI کا الیکشن ناٹک ہے'

اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ جو شخص پارٹی کے سینٹرل سیکرٹریٹ میں ان تمام معاملات کو دیکھ رہے تھے اور عمران خان کے کافی قریبی تھے، انہوں نےبتایا کہ ہمارے پاس کاغذات نامزدگی، ووٹرز لسٹ اور قواعد و ضوابط کی کاپی جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں تو ہم آپ کو کیسے دیں؟ الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن کے حکم پر یہ صرف ایک کاغذی کارروائی ہو رہی ہے۔ وہ جس کو چاہیں گے پارٹی چیئرمین بنا دیں گے۔

'کاغذات نامزدگی، ووٹرز لسٹ اور نہ قواعد کی کاپی؛ PTI کا الیکشن ناٹک ہے'

پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی ہو گئی۔ تحریک انصاف کے ناراض بانی رکن اکبر ایس بابر نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے انہیں الیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔ اکبر ایس بابر پوچھتے ہیں، یہ کیسے الیکشن ہیں جن میں پارٹی کے بانی اراکین شرکت نہیں کر سکتے؟ ان انتخابات میں کاغذات نامزدگی ہیں، نہ ووٹرز لسٹ اور نا ہی قواعد و ضوابط کی کاپی موجود ہے۔ یہ الیکشن ایک ناٹک ہے جو الیکشن کمیشن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے رچایا گیا ہے۔

انتخابی نشان 'بلّے' کو بچانے کے لیے پارٹی کے سابق چیئرمین عمران خان کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے بیرسٹر گوہر علی خان کو چیئرمین کا امیدوار نامزد کیا گیا جس کے بعد سے پی ٹی آئی میں ناصرف اختلافات سامنے آئے بلکہ یہ بھی خبریں گردش کرنے لگی ہیں کہ پارٹی میں دھڑے بن گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر پاکستان تحریک انصاف نے آج 2 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا جن میں گوہر خان بلامقابلہ پارٹی چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں۔ تاہم گذشتہ روز پارٹی کے ناراض بانی رکن اکبر ایس بابر نے 13 سال بعد پارٹی کے سینٹرل سیکرٹریٹ کا دورہ کیا اور وہاں موجود پارٹی رہنماؤں اور کارکنان سے ملاقات کی۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ یہ الیکشن محض الیکشن کمیشن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کروائے جا رہے ہیں۔ اکبر ایس بابر کے دعوؤں کے بعد پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن متنازعہ ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آج پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں گوہر خان ناصرف چیئرمین 'سیلیکٹ' ہوئے بلکہ بلامقابلہ منتخب ہوئے۔

اکبر ایس بابر نے گذشتہ رات ڈان نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا بالکل بھی ایسا ارادہ نہیں ہے کہ میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو متنازعہ بناؤں کیونکہ یہ الیکشن تو ہو ہی نہیں رہے۔ کبھی ایسا الیکشن نہیں دیکھا جس میں الیکٹورل کالج ، ووٹرز لسٹ، کاغذات نامزدگی اور الیکشن کے قواعد ہی موجود نہ ہوں۔ مسخ شدہ انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی پی ٹی آئی کی تاریخ رہی ہے۔ 2013 میں پارٹی میں الیکشن کروانے کی کوشش کی گئی تھی تب بڑے فراڈ طریقے سے جسٹس وجیہہ الدین کو اپائنٹ کیا گیا۔ انہوں نے ویلیڈیٹ کیا تھا کہ یہ تمام الیکشن فراڈ تھے۔ جسٹس وجیہہ الدین کی الیکشن سے متعلق سفارشات نہیں مانی گئیں۔ بعدازاں جسٹس وجیہہ نے کچھ لوگوں کو پارٹی سے نکالنے کے لیے نامزد کیا تو جسٹس وجیہہ کو ہی پارٹی سے نکال دیا گیا۔

جب تسنیم نورانی کو پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تو انہوں نے شفاف الیکشن کروانے کے لیے اقدامات کیے اور ووٹرز لسٹوں کی چیکنگ کا بھی آغاز کیا تو انہیں مجبور کیا گیا کہ ہم معاملات کو ایسے نہیں چلاتے۔ اس کے بعد انہوں نے 2016 میں استعفیٰ دے دیا۔ پھر الیکشن کمیشن نے کورونا چیپٹر کے بعد الیکشن کے لیے کہا تو 13 سال کے اختلافات کے باوجود میں اور دیگر پارٹی رہنما، جو اس الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے، پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ گئے۔ سعید اللہ نیازی، یوسف علی اور ٹیکسلا سے بانی ممبر بلال رانا سمیت قریب 15 لوگ تھے۔ ہم صرف جمہوری طریقے سے اس پراسیس کا حصہ بننا چاہتے تھے۔

مجھے عمران خان نے دو بار سیکرٹری جنرل کے عہدے کی پیشکش کی لیکن میں نے قبول نہیں کی کیونکہ میرے اتنے وسائل نہیں تھے۔ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ یہ انتخابی عمل شفاف اور جمہوری طریقے سے سرانجام پائے۔ پارٹی ورکرز کی قدر کی جائے اور وہ میرٹ پر اپنے لیڈر کا انتخاب کر سکیں جو پارٹی کا ترجمان ہو اور قومی سیاست میں کردار ادا کرے۔ ہماری سیاسی جماعتیں کہتی تو ہیں کہ ہم ملک میں جمہوریت چاہتی ہیں لیکن اپنی پارٹی میں جمہوریت برداشت نہیں کرتیں۔ میں اختلافات کے باوجود اپنے ساتھ پی ٹی آئی کے حقیقی ورکرز کو لے کر گیا اورصرف 3 درخواستیں کیں۔ ایک تو ہمیں کاغذات نامزدگی دے دیں۔ دوسرا ہمیں ووٹرز لسٹ فراہم کر دیں اور تیسرا ہمیں اس الیکشن کے قواعد و ضوابط کی کاپی دے دیں۔

اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ جو لوگ پارٹی کے سینٹرل سیکرٹریٹ میں ان تمام معاملات کو دیکھ رہے تھے اور عمران خان کے کافی قریبی تھے، انہوں نے ہمارے مطالبے پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ہم وہاں کھڑے رہے اور ان سے کہا کہ یہ 3 چیزیں دے دیں تا کہ ہم جا کر اپنے کاغذات مکمل کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کاغذات نامزدگی، ووٹرز لسٹ اور قواعد و ضوابط کی کاپی جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں تو ہم آپ کو کیسے دیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن کے حکم پر یہ صرف ایک کاغذی کارروائی ہو رہی ہے۔ وہ جس کو چاہیں گے پارٹی چیئرمین بنا دیں گے۔ انہوں نے بڑی دیانتداری کے ساتھ جو بھی تھا وہ ہمیں بتا دیا۔ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ یہ کیسے الیکشن ہیں کہ جن میں پارٹی کے بانی اراکین شرکت نہیں کر سکتے؟

اکبر ایس بابر نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ہم پی ٹی آئی کا حصہ اور بانی رہنما ہیں۔ ہم بانی ارکان نے پارٹی کا آئین بنایا تھا۔ ہم نے شق رکھی تھی کہ ایک شخص کو 3، 3 سال کے لیے صرف 2 بار پارٹی کا چیئرمین منتخب کیا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے ورکرز کو پارٹی چیئرمین چننے کا اختیار ہونا چاہئیے تھا۔ ہم یہ سوچ لے کر چلے تھے کہ باقی سیاسی جماعتوں سے مختلف ہوں گے۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر ناٹک ہوا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کے دوران میری ممبرشپ کو چیلنج کر دیا گیا۔ میرے پاس الیکشن کمیشن کا 17 مئی 2017 جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا سنگل بنچ اور ڈبل بنچ فیصلہ موجود ہے کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے ممبر ہیں۔ اسی فیصلے کے تحت میں بطور ممبر اپنا حق مانگنے گیا تھا کہ مجھے اس الیکشن میں حصہ لینا ہے۔ مجھے کاغذات دینے سے انکار نہیں کیا گیا بلکہ یہ کہا گیا کہ ہمارے پاس ہوتے تو ہی ہم آپ کو دے پاتے۔

اکبر ایس بابر نے کہا کہ عمران خان نے اپنے پارٹی ورکرز پر اعتماد نہیں کیا، ان کا حق چھینا۔ انہوں نے ایک ایسے انسان کو چیئرمین بنا دیا جو چند ماہ پہلے تک پیپلز پارٹی کا حصہ تھا اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایک مرتبہ الیکشن بھی لڑ چکا ہے۔ انہوں نے ان تمام لوگوں کو نظرانداز کر دیا جنہوں نے پارٹی کے لیے خدمات انجام دیں، قربانیاں دیں۔ گوہر خان کو ذاتی طور پر نہیں جانتا، وہ بلاشبہ اچھے وکیل ہوں گے اور عمران خان کے لیے شاندار وکالت کا مظاہرہ بھی کیا ہو گا لیکن یہ تو کوئی میرٹ نہیں ہے جس کی بنیاد پر انہیں پارٹی چیئرمین نامزد کر دیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ تمام حقائق الیکشن کمیشن میں لے کر جاؤں گا تا کہ الیکشن کمیشن شفاف جائزہ لے کر فیصلہ کرے کہ 'بلے' کا نشان پی ٹی آئی کو دینا ہے یا نہیں اور یہ الیکشن تھے یا نہیں۔