Get Alerts

ملائشیا کی حکومت کے شیعہ شہریوں پر مظالم

ملائشیا کی حکومت کے شیعہ شہریوں پر مظالم
تحقیق:  ڈاکٹر محمد فیصل موسیٰ،  ڈاکٹر تان بنگ ہوئی

ترجمہ: حمزہ ابراہیم

خلاصہ

یہ مقالہ ملائشیا کے شیعہ مسلمانوں کے خلاف آئینی جبر، مذہبی منافرت اور ان کی منظم تحقیر و تذلیل کی بنیادوں کو سامنے لاتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے 1996 میں مرکزی حکومت کی طرف سے شیعہ مسلک پر پابندی اور شیعہ تعلیمات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے جاری ہونے والا سرکاری فتویٰ انسانی حقوق کی معطلی کے ایک سلسلے کا آغاز ثابت ہوا۔ شرعی قوانین کے علاوہ ریاست نے شیعہ شہریوں کی زندگی اجیرن بنانے کے لئے مذہبی بیوروکریسی اور میڈیا جیسے ہتھیاروں کو بھی استعمال کیا ہے۔ شیعہ مخالف سرگرمیوں میں اسلام کو ریاست سمجھنے والے غیر سرکاری عناصر بھی ریاست کا ساتھ دیتے ہیں۔



مکمّل پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے: ملائشیا کی حکومت کے شیعہ شہریوں پر مظالم







تعارف

ملائشیا کی وزارت داخلہ کے مطابق اس ملک میں شیعوں کی آبادی دو لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ ان میں ملائشیا کے شہریوں کے علاوہ وہاں عارضی طور پر آنے والے ہندوستان، پاکستان، ایران اور برما وغیرہ سے تعلق رکھنے والے شیعہ بھی شامل ہیں۔ ملائشیا کے شیعہ امتیازی سلوک سے بچنے کے لئے تقیہ کرتے رہے ہیں اور اس وجہ سے جہاں ان کی تعداد کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے وہیں ملائشیا میں شیعیت کی تاریخ پر بھی گرد پڑی ہوئی ہے۔ متعدد سرکاری عوامل اور شیعہ دشمن تنظیموں کے گٹھ جوڑ سے شیعوں کے خلاف نفرت اور جبر و تشدد ایک معمول بن چکا ہے۔ تاہم اس سارے عمل میں ریاست کا کردار مرکزی ہے، جس نے شیعوں کے انسانی حقوق چھین لیے اور ان کو مجرم بنا کر پیش کیا۔

آغاز کیسے ہوا؟

مہاتیر محمد کے پہلے دور اقتدار (1981 تا 2003) میں سعودی عرب کی مدد سے سنی اسلام کی تنگ نظر تفسیر کو سرکاری سرپرستی میں رواج ملنا شروع ہوا۔ ابتدا میں اس اسلام کے ظواہر و رسومات پر زیادہ زور دیا گیا۔ متعدد مدارس اور مساجد قائم ہوئیں۔ اسلامی بنکاری متعارف کرائی گئی۔ ریڈیواور ٹیلی وژن پر اسلامی پروگراموں کا دورانیہ بڑھایا گیا اور اسلامی آرٹ کے فروغ پر پیسہ خرچ کیا گیا۔ 1990 کی دہائی میں مزید سخت گیر تعلیمات کی تبلیغ کا آغاز ہوا۔ شریعت کے نام پر سیاسی مقاصد رکھنے والی مذہبی استبداد پر مبنی تشریح کو رائج کیا جانے لگا تاکہ ریاست میں صوبوں کی نسبت وفاق کو زیادہ طاقت دی جا سکے۔ اس عمل کو ”شریعہ لابی“ کی حمایت حاصل تھی، جس میں سرکاری اور غیر سرکاری عناصر شامل ہیں، اور ان کا بنیادی مقصد قوم کی ذاتی اور اجتماعی زندگی کو اسلام کے زیر سایہ لانا تھا۔ مذہب کو سیاست سے ملا کر انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا جائے اور باقی مذاہب کو اس کے تابع قرار دیا جائے، شرعی قوانین کا نفاذ کیا جائے اور جنسی اخلاقی معیارات کو اسلام کا پابند بنایا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ”شریعہ لابی“ شیعوں کے علاوہ لبرل مسلمانوں، خواجہ سراؤں، ہم جنس پسندوں اور دوسرے نسبتاً غیر معروف مسلمان فرقوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ان کو ملک کی اہم سیاسی جماعتوں میں نفوذ حاصل ہے۔ وہ جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں مگر انتخابات کے عمل میں شریک ہونے کو مفید چال سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ملائشیا کو سعودی عرب سے خاطر خواہ مالی امداد ملی ہے تاہم امریکی پابندیوں سے پہلے تک ایران کے ساتھ بھی اس کے شاندار تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اگرچہ ملائشیا اپنے شیعہ شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کرتا رہا ہے لیکن ایرانی تاجروں اور طلبہ کے لئے اس کے دروازے کھلے ہیں۔

آئینی زنجیریں

ملائیشیا کی نیشنل فتویٰ کونسل نے 1984 میں فقہ جعفریہ اور فقہ زیدیہ کو ملائیشیا میں رسمی طور پر تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم ملائشیا کے اندر شیعہ مخالف رسالے اور مضامین 1990 میں چھپنا شروع ہوئے۔ ان میں سب سے اہم وہ مضمون ہے جو اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے فارغ التحصیل ہو کر ملائشیا جانے والے محمد اثری یوسف نے لکھا۔ یہ مقالہ 1992 میں نیشنل یونیورسٹی آف ملائشیا میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں پڑھا گیا۔ بعد میں یہ مضمون ”اثنا عشری شیعہ بطور پانچواں فقہی مسلک“ کے عنوان سے شائع ہونے والے مجموعے کا حصہ بنا۔

ملائیشیا کی نیشنل فتویٰ کونسل نے 1996 میں ”ملائشیا میں شیعیت“ کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس کے بعد ایک فتویٰ جاری کیا گیا کہ جس میں 1984 کے اعلان کے مطابق جعفری اور زیدی فقہ کو سرکاری طور پر تسلیم نہ کرنے کا اعادہ کیا گیا۔ دوم یہ کہ ملک کے مسلمان شہری عقائد، فقہی مسائل اور اخلاقیات میں صرف مسلکِ اہلسنت والجماعت کی پیروی کر سکتے ہیں۔ اس فیصلے کو آئین کا حصہ بنانے اور تمام وفاقی و صوبائی قوانین کو اس کے مطابق بدلنے کا اعلان کیا گیا۔ سوم یہ کہ اہل سنت والجماعت کے مسلک کے علاوہ کسی اور مسلک کی تعلیمات کا پرچار غیر قانونی قرار دیا گیا۔ ملائشیا میں فتویٰ دینے کا اختیار صرف اس سرکاری ادارے کو حاصل ہے اور ان مفتیوں کا دیا گیا فتویٰ قانون کا حصہ بن جاتا ہے اور اس کی مخالفت پر تین سال قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔

اکتوبر 1997 میں دس شیعہ شہریوں کو قانون امنیتِ داخلہ کے تحت گرفتار کیا گیا، ایک ایسا قانون جو مقدمہ درج کیے بغیر گرفتاری کی اجازت دیتا ہے۔ ان کے ساتھ کئی اور افراد کو بھی پکڑا گیا تھا مگر انہوں نے تقیہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو سنی قرار دیا اور گرفتاری سے بچ نکلے۔ یہ اپنی نوعیت کا سب سے پہلا واقعہ تھا جو خبروں میں آیا۔ اس کے بعد اکتوبر 2000 میں اسی قانون کے تحت چھ شیعہ شہریوں کو گرفتار کیا گیا جن کو اگلے سال جنوری میں رہائی ملی۔ ملائشیا کی حکومت نے واضح کیا کہ وہ اس کے علاوہ دوسرے قوانین، جیسے غداری ایکٹ 1948، امن عامہ ایکٹ 1958 اور ایمرجنسی آرڈیننس 1969 کو ان لوگوں کے خلاف استعمال کر سکتی ہے جو گمراہی پھیلا رہے ہیں۔ 2003 میں مہاتیر محمد کی حکومت ختم ہو گئی اور عبداللہ احمد بدوی کی حکومت (2003 تا 2009) کے دوران شیعوں پر سختی کم ہو گئی۔ تاہم نجیب رزاق کی جماعت کے برسر اقتدار آنے سے ”شریعہ لابی“ کا اثرورسوخ دوبارہ بڑھ گیا۔

ریاست سیلانگر میں کارروائیاں

سیلانگر کی ریاست ملائشیا میں اس اعتبار سے اہم ہے کہ یہاں کوالالمپور شہر آباد ہے جو ملائشیا کا صدر مقام ہے اور یہاں بہت سے غیر ملکی افراد بھی رہتے ہیں۔ دسمبر 2010 میں گومبک میں دو سو کے قریب شیعہ شہریوں کو گرفتار کیا گیا جن میں غیر ملکی بھی شامل تھے جو وہاں پڑھائی یا کاروبار کی نیت سے آئے تھے اور ایک امام بارگاہ میں مذہبی تقریب میں شریک تھے۔ ان میں سے دو افراد پر مقدمہ درج ہوا اور باقی رہا کر دیے گئے۔ مئی 2011 میں حضرت فاطمہ زہراؑ کے یوم ولادت کی مناسبت سے منعقد ہونے والی ایک تقریب پر چالیس کے قریب حکومتی اہلکاروں نے ریڈ کر کے چار افراد کو گرفتار کیا اور باقیوں کو بھگا دیا۔ ستمبر 2013 میں ایک اور امام بارگاہ پر چھاپہ مارا گیا اور سامان قبضے میں لے لیا گیا۔ اپریل 2014 میں اسی مقام پر نیاز تقسیم کرنے کی تقریب پر چھاپہ پڑا اور ذکر پڑھنے کے جرم میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا۔ اکتوبر 2015 میں سولہ افراد کو عاشورہ کے دن عزاداری کرنے کے شبہے پر گرفتار کیا گیا جنہیں جرم ثابت نہ ہونے پر دو روز بعد ضمانت پر رہائی ملی۔ اگلے سال تیس پاکستانی شیعہ ایک کرائے کے مکان پر عزاداری کرتے ہوئے پکڑے گئے لیکن بعد میں ان کو غیر ملکی ہونے کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔

باقی ریاستوں میں کارروائیاں

ریاست پیراک میں اگست 2013 میں ایک خاتون ہومیو پیتھک ڈاکٹر کے دفتر پر شیعہ ہونے کے شبہے میں چھاپہ پڑا اور اسے ایک رات جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ اس کے علاوہ بھی اسی ماہ ایک اور شخص کو گرفتار کیا گیا۔ ستمبر 2013 میں تین شیعہ شہریوں کو گرفتار کیا گیا جن کے پاس سے ایک بینر، شیعہ سنی مکالمے پر ایک کتاب کے متعدد نسخے اور ایک سجدہ گاہ برآمد ہوئی۔ ان کو بھی قید کی سزا ہوئی اور فروری 2014 میں سات سو ڈالر کا جرمانہ ادا کر کے ضمانت پر رہائی ملی۔ مارچ 2014 میں سیدہ زینب بنت علیؑ کے یوم پیدائش کی خوشی مناتے ہوئے ایک سو چودہ افراد گرفتار ہوئے البتہ وہ اگلے دن رہا ہو گئے۔

ریاست پاہانگ میں اکتوبر 2013 کو ایک مسجد کے امام کو شیعہ ہونے کے شبہے پر گرفتار کیا گیا۔ اس سے شیعہ مسلک کے بارے میں کچھ کتابیں بھی برآمد ہوئیں۔ البتہ اس کے خلاف سماعت کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔

جوہر باہرو میں جنوری 2013 میں تیرہ افراد نے، جن کا تعلق حسینیہ دارالمصطفیٰ سے تھا، اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ ان کے خلاف مقدمے کی سماعت بھی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ اکتوبر 2016 میں ایک دکان پر دعائے کمیل کی تقریب پر چھاپہ ڈال کر تینتیس افراد کو پکڑا گیا جن میں کچھ بچے بھی شامل تھے۔ دعائے کمیل کے متعدد نسخے قبضے میں لے لیے گئے۔ ان میں سے پانچ کو جیل بھیج دیا گیا۔

ریاست صباح میں اگست 2016 میں علما کونسل نے فتویٰ دیا کہ شیعوں سے شادی کرنا غیر قانونی ہے اور ایسا ہر نکاح باطل ہے۔

جمعے کے سرکاری خطبے

ستمبر 2011 میں ریاست ترنگانو کی تمام مساجد میں جمعے کے خطبے میں شہریوں کو کہا گیا کہ وہ شیعہ مسلک سے ہوشیار رہیں ورنہ ”جنگ، قتل و غارت اور سول وار“ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 2014 میں مفتی کے آفس سے ایک اور شیعہ مخالف خطبہ جاری ہوا جس کے مطابق شیعہ مسلک ایک یہودی سازش ہے تاکہ مسلمانوں میں بدامنی پیدا ہو۔ اس خطبے میں یہ بھی بتایا گیا کہ شیعہ اکثر سنیوں کو کافر سمجھتے ہیں۔

ریاست سیلانگر میں اپریل 2012 میں شیعوں کے خلاف خطبہ تقسیم کیا گیا جس کے مطابق شیعہ قرآن کے منکر ہیں اور ان کا قرآن الگ ہے۔ نومبر 2013 میں کوالالمپور اور پتراجیا میں جمعے کے ایک خطبے، بعنوان ”شیعہ وائرس“، میں شیعوں کو لواطت کا عادی قرار دیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ ان کی ”زہریلی تعلیمات“ کو روکنا جہاد ہے۔ سامعین کو بتایا گیا کہ انہیں جہاں کوئی شیعہ ملے، حکومت کو اس کی اطلاع دیں تاکہ اس فرقے کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اکتوبر 2016 میں ایک اور شیعہ مخالف خطبہ پڑھا گیا جس کے مطابق شیعہ باغی ہوتے ہیں اور ان کے مذہب کی تبلیغ قانونی طور پر جرم ہے۔

ذرائع ابلاغ کا استعمال

جون 2012 میں ”شیعہ خطرہ“ کے عنوان سے ایک ٹاک شو میں شیعوں کو ’’خطرناک یہودی‘‘ قرار دیا گیا جو یہودیوں کے ساتھ مل کر سازش کرتے رہتے ہیں، عادی دھوکے باز ہیں اور سنیوں کو کتے سمجھتے ہیں۔

کچھ ماہ پہلے سرکاری چینل، ریڈیو ٹیلی وژن ملائشیا، پر ایک ٹاک شو ہوا جس کا عنوان ”مسلک یا مذہب“ تھا، اور اس میں کہا گیا کہ شیعہ شادی کے بغیر جنسی تعلق کو جائز سمجھتے ہیں، دھوکے باز ہوتے ہیں، یہودیوں کی پیداوار ہیں اور سنیوں سے دشمنی رکھتے ہیں۔ اس پروگرام میں یہ بھی کہا گیا کہ شیعوں نے سنیوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔

البتہ کچھ صحافیوں نے اس بیانئے پر اعتراض بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر جب 2010 میں ایک اخبار نے ایک مضمون میں ایسے دعوے کیے تھے تو حرکہ نامی اخبار سے وابستہ ایک صحافی حارث ذوالکفلی نے کہا کہ شیعوں پر سنیوں کے قتل عام کا الزام لگانے سے پہلے متعلقہ فریق کا مؤقف جاننا چاہیے تھا۔ نیز یہ کہ اخبار کو شیعوں کو کافر قرار دینے کے بجائے شیعہ اور سنی مکاتب فکر کے فرق پر بات کرنی چاہیے تھی، سب شیعوں کو ایک رنگ میں رنگنا بھی غلط ہے۔

سنسر شپ

پہلے صرف کمیونزم اور پورنوگرافی سے متعلقہ مواد چھاپنے پر پابندی تھی لیکن اب حکومتی ادارے اپنی پسند کے اسلام کو نافذ کرنے کے لئے ہر ایسی تحریر کے چھاپے جانے پر پابندی لگا رہے ہیں جسے وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2014 میں ایک ناول پر، جو کئی سال سے چھپ اور بک رہا تھا، شیعیت پھیلانے اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کے الزام کے تحت پابندی لگا دی گئی۔

مذہبی تنظیموں کا کردار

اخوان المسلمون ملائیشیا، ایک تنظیم جو لبرل ازم، پلورل ازم اور انسانی حقوق کے خلاف متحرک رہتی ہے، نے ایک الگ شعبہ قائم کر رکھا ہے جس کا مقصد شیعہ مخالف تبلیغ کرنا ہے۔ اس تنظیم نے 2013 میں ایک اور اسلامی تنظیم پنبینا کے ساتھ مل کر ایک سیمینار منعقد کیا جس میں شیعوں پر یہ الزامات عائد کیے گئے: ”وہ اپنے مخالفین کو وہابی کہہ کر سیاست دانوں اور علما کو آپس میں لڑاتے ہیں۔ وہ مذہبی اداروں میں گھر کر چکے ہیں اور وہاں بننے والی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں“۔ شیعوں کے علاوہ جن خطرات سے ڈرایا گیا وہ چین، فری ٹریڈ معاہدہ، امریکی حکومت سے معاہدے اور مسیحی اقدار تھیں۔ ایک اور مذہبی جماعت جو کافی معتدل ہے، بھی شیعوں کے بارے میں ایسے بیانات دے چکی ہے جن میں ان کو کافر قرار دیا گیا ہے۔

سیمینار اور جلسے منعقد کرنے کے علاوہ کچھ تنظیمیں شیعوں پر دھاوا بولنے جیسے اعمال میں بھی ملوث رہی ہیں۔ اکتوبر 2016 میں ریاست سیلانگر میں دو مقامی مساجد اور ایک مذہبی تنظیم کے کارکنان نے ستر افراد کے ساتھ ایک شیعہ شہری کی دکان کے سامنے اس بات پر احتجاج کیا کہ وہ اپنے مسلک کو پھیلا رہا تھا۔ انہوں نے بینر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا: ”ملائشیا کی خاک کو شیعوں سے پاک کرو“۔ ان کو گلہ تھا کہ متعدد شکایات کے باوجود یہ دکان بند نہیں کی گئی۔

بعض اوقات یہ تنظیمیں ایسی تقریبات حکومتی عمارات میں بھی منعقد کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ستمبر 2013 میں ”شیعہ وائرس سے نمٹنے کے طریقے“ کے عنوان سے ایک سیمینار کوالالمپور میں ایک سرکاری عمارت، ”پوسات اسلام“، میں منعقد ہوا۔ اسی طرح کا ایک سیمینار یونیورسٹی آف سائنس میں بھی منعقد ہوا۔ ایسی تقاریب میں اکثر سرکاری عہدیدار بھی خطاب کرتے ہیں۔ اسلامک دعوۃ فاؤنڈیشن آف ملائشیا نامی تنظیم کے پروگرام میں ان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ایک سرکاری عہدیدار نے کہا کہ انہوں نے حال ہی میں کامیابی سے ایک ایسے طالب علم کا پتہ لگا کر حکومت کو اطلاع دی جو شیعہ تھا۔

مأخذ:

Mohd Faizal Musa & Tan Beng Hui, "State-backed discrimination against Shia Muslims in Malaysia", Critical Asian Studies, 49: 3, 308-329, 2017. DOI: 10.1080/14672715.2017.1335848

ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔