پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے سال 2017 میں جب پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ بی آر ٹی منصوبے کا افتتاح کیا تو دعویٰ کیا گیا کہ جون 2018 میں ہونے والے قومی انتخابات سے پہلے اس منصوبے کو مکمل کیا جائے گا جس پر تعمیرات کے سیکٹر سے وابستہ ماہرین نے حیرانی کا اظہار کیا کہ یہ منصوبہ اتنے قلیل مدت میں مکمل نہیں ہوسکتا مگر صوبائی حکومت بضد تھی کہ اس منصوبے کو الیکشن سے پہلے ہی مکمل کیا جائے گا مگر پھر وزیر اعظم عمران خان نے نامکمل بی آر ٹی کا اگست 2020 میں افتتاح کیا۔ اس منصوبے میں اگر ایک طرف آڈیٹر جنرل پاکستان نے سنگین مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تو دوسری جانب اس منصوبے کے ڈیزائن میں بھی کئی غلطیاں سامنے آئی۔
آڈیٹر جنرل کے دستاویزات کے مطابق اس منصوبے میں مجموعی طور پر2ارب 77 کروڑ47لاکھ روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہےجبکہ میگا منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی سےلاگت 49 ارب روپے سے بڑھ کر67 ارب تک پہنچی ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری سمیت کئی اعلی افسروں نے 1کروڑ77لاکھ روپےکی اضافی تنخواہیں بھی وصول کیں۔ دستاویزات میں مزید لکھا گیا ہے کہ بی آرٹی کے17لاکھ روپے مردان اور ایبٹ آباد میں پنک بسوں پر خرچ کردئیے گئے جبکہ پرانے تعمیرات کے ملبے کے5 کروڑ روپے کی ٹھیکے داروں سے وصولی نہیں ہوئی۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق پی سی ون کے 143ملازمین سمیت مزید افراد کو عہدوں پر نوازا گیا۔
منصوبے کے افتتاح کے بعد بسوں میں اگ لگنے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا جن کی وجہ سے بی آر ٹی منصوبے کو ایک ماہ کے لئے عارضی طور پر معطل کیا گیا۔
سال 2019 میں صوبائی حکومت کی ایک انسپیکشن ٹیم نے ایک مفصل رپورٹ حکومت کو بھیج دی جس میں موقف اپنایا گیا کہ اس منصوبے میں سات ارب روپے کی کمیشن لی گئی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے گزشتہ سال وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو احکامات جاری کئے تھے کہ وہ پشاور بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کرکے 45 دن کے اندر اندر رپورٹ عدالت میں جمع کریں جس کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور اج سپریم کورٹ اف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے اور قومی احتساب بیورو کو تحقیقات سے روک دیا۔
سپریم کورٹ سے وابستہ سینئر وکیل حضرت سید ایڈوکیٹ نے سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے پر قانونی رائے دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس وقار سیٹھ ایک آزاد اور دبنگ انسان تھے جو نہ تو کسی کی پریشر قبول کرتے تھے اور نہ فیصلوں کے بعد آنے والے رد عمل کی پروا کرتے تھے اس لئے انھوں نے تحقیقات کا حکم جاری کیا تھا مگر میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر حیران ہو کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کو تحقیقات سے روک دیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے اگر تحقیقات کرتی تو شائد یہ بات بھی سامنے اسکتی تھی کہ اس منصوبے میں کرپشن نہیں ہوئی ہے اور حکومت کو احلاقی جیت نصیب ہوتی مگر میرے لئے یہ فیصلہ کسی حیرانی سے کم نہیں اور میں نے اپنے قانونی سفر میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں دیکھا ہے۔
پشاور میں مقیم تحقیقاتی صحافی لحاظ علی نے نیا دور میڈیاکو بتایا کہ یہ منصوبہ خیبر پختونخوا کے تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے اور اس میں نہ صرف بے ضابطگیاں اور بے قاعدگیاں بھی ہوئی ہیں بلکہ کرپشن بھی سامنے آئی ہے کیونکہ پاکستان میں جہاں پر بھی سریا اور سیمنٹ استعمال ہوتا ہے کرپشن اور کمیشن ضرور ہوتا ہے تو پھر بی آر ٹی کا منصوبہ تو ایک بڑا منصوبہ ہے اور اسکی تحقیقات رکوانا میرے لئے حیران کن ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کرپشن ہونا اور کرپشن ثابت کرنا دو الگ الگ موضوعات ہے اور پاکستان میں کئی جگہوں پر کرپشن ہوجاتی ہے لیکن پھر اس کو ثابت کرنے کے لئے ہمارے ہاں اگر ایک طرف سیاسی اثررسوخ ہے تو دوسری جانب کرپشن کو ثابت کرنے کے لئے ماہرین کا بھی فقدان ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر موجودہ نیب سے بی آر ٹی کی تحقیقات کرانی ہے تو پھر تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نیب اب غیر جانب دار ادارہ نہیں اور اس کی ساکھ پر کئی سوالات اُٹھ چکے ہیں مگر بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات ضروری ہے۔
پشاور میں مقیم صحافی اظہار اللہ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ بی آر ٹی منصوبے کی ایک غیر جانب دار تحقیقات ضروری ہے تاکہ اس ملک کے شہریوں کو اس منصوبے کے حوالے سے معلوم ہوجائے کہ کیا واقعی یہ منصوبہ شفافیت پر منی تھا یا نہیں کیونکہ اس پراجیکٹ پر بنیادی اعتراض یہی ہے کہ اس منصوبے کی مالی لاگت 49 ارب روپے سے 67 ارب روپے تک کیسے پہنچی ؟ انھوں نے مزید کہا کہ دوسرا بنیادی مسئلہ کہ اس منصوبے کے ڈیزائن میں مسلسل تبدیلی سے بھی اس پراجیکٹ کا تخمینہ بڑھ گیا اور اس پر بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ ڈیزائن میں تبدیلی کیوں اور کس کے کہنے پر کی گئی۔
صحافی اظہار اللہ کا ماننا ہے کہ بی آر ٹی منصوبے پر آڈیٹر جنرل پاکستان کی آڈٹ رپورٹ منظر عام پر لانا چاہیے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیا واقعی یہ منصوبہ شفاف تھا یا نہیں۔