جب سے وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالا ہے انہوں نے اپنی تقاریر اور پالیسی اعلانات کے دوران ان گنت مرتبہ ریاست مدینہ کا حوالہ دیا ہے۔ یوں تو مدینے کی ریاست کا خواب انتہائی معتبر ہے اور پاکستان میں بسنے والے مسلماںوں اور شاید غیر مسلم آبادی کو بھی انتہائی عزیز ہے لیکن ریاست مدینہ آخر ہے کیا؟
کسی بھی تاریخی یا مذہبی حوالے کی طرح ریاست مدینہ ایک مبہم تصور ہے جس کا اکیسیوں صدی میں نفاذ اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے۔ آئیے ریاست مدینہ کے نظام کی اہم ترین خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ ریاست مدینہ کا تصور یگانگت، بھائی چارے اور صلح کل پر مبنی ہے۔
2۔ ریاست مدینہ کا تعلق ایک انتہائی اہم دستاویز جس کو میثاق مدینہ کہا جاتا ہے سے منسلک ہے، میثاق مدینہ میں مسلم اور غیر مسلم خصوصاً یہودی آبادی کے درماین بقائے باہمی کی بنیاد پر سیاسی، سماجی اور سیاسی تعلقات کو پروان چڑھایا گیا۔
3۔ اس معاشی مساوات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا تصور بھی موجود ہے، جیسا کہ آج سے چودہ سو سال پہلے انصار مدینہ نے مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین کو نہ صرف گلے لگایا بلکہ اپنی جائیداد اور دیگر وسائل میں بھی شریک کیا۔
4۔ اور سب سے ہم خصوصیت یہ تھی کہ اس دوران رسول اکرمﷺ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے مخالفین کے خلاف کسی بھی جارحانہ کارروائی سے گریز کیا۔
آئیے، اب آج کی ریاست مدینہ کا جائزہ لیتے ہیں۔
محض تقاریر اور دلفریب نعروں سے ریاست مدینہ معرض وجود میں نہیں آ سکتی۔ پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتیں آج بھی کسمپرسی اور قانونی طور پر امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں میں قانونی سطح پر ایسی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی جس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اقلیتوں کے تحفظ کے لئے کوئی ٹھوس اقدام اٹھایا ہے۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم کی ہنر مند وزیر برائے انسانی حقوق دنیا بھر کے انسانی حقوق کے لئے تو آواز بلند کرتی ہیں لیکن اپنے آنگن میں مسلے ہوئے پھول انہیں نظر نہیں آتے، چاہے وہ ہندو لڑکیوں کا اغوا اور جبری شادیاں ہوں یا احمدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک۔
وزیر اعظم اور ان کی کابینہ یہ تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں۔ اس حکومت کے آغاز میں ہی احمدیوں کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کا بندوبست اس وقت کیا گیا جب ایک احمدی ماہر معاشیات عاطف میاں کو ایک مشیر کے طور پر نامزد کیا گیا اور بعد میں وہ نامزدگی واپس لے لی گئی۔ اگر اس وقت عمران خان صاحب عاطف میاں کی اہلیت اور قابلیت کو مد نظر رکھتے اور ان کی مذہبی شناخت کو بھول جاتے تو یہ مدینے کی ریاست بنانے میں اہم قدم ثابت ہوتا۔
جناب عمران خان اپوزیشن کے رہنماؤں کو برا بھلا کہنے سے خود کو روک نہیں سکتے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں بیمار سیاسی حریف نواز شریف کی جیل میں سیل سے اے سی اتروانے جیسی اذیت پسند سوچ کا اظہار بھی کیا۔ مسئلہ یہاں عمران خان کی سوچ کا نہیں بلکہ ان کے کہے ہوئے الفاظ پر یقین کرنے والوں کا بھی ہے کیونکہ پاکستان میں اس وقت ایک بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اذیت پسندی اور بغیر عدالتی چارہ جوئی کے اپنے سیاسی حریفوں کو مستقل جیل میں بند رکھنے کو انصاف کہتے ہیں۔ انصاف کی ایسی تشریح اور تعبیر یقیناً ریاست مدینہ کے تصور سے متصادم ہے۔ بلکہ نعوذباللہ اس طرح کی سیاسی روش کو آنحضرتﷺ کی پاک ذات سے جوڑنا بھی کج فہمی کے زمرے میں آتا ہے۔
2020 کی ریاست مدینہ کسی بھی مسئلے پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکی، چاہے وہ ٹیکسوں کی وصولی کا نظام ہو یا سول سروس میں اصطلاحات، یہاں تک کہ چیف الیکشن کمشنر کی روٹین تقرری پر بھی اتفاق پیدا نہ ہو سکا۔ اس کو ریاست مدینہ کیسے گردانا جا سکتا ہے؟ اور تو اور وزیر اعظم صاحب پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اگر وہ واقعتاً ریاست مدینہ کے اتنے معترف ہیں تو ان کو وہ زمانہ بھی یاد کرنا چاہیے جب ہمارے پیارے نبیﷺ نے اپنے تمام دشمنوں کو معاف کر دیا تھا۔
اب آئیے معاشی مساوات کی طرف۔ گذشتہ برس ہمارے عالی قدر وزیر اعظم صاحب نے اپنے ہی کیے ہوئے وعدوں کو رد کرتے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ایک معاہدہ کر لیا۔ جس کا خمیازہ پاکستانی کے عوام خصوصاً متوسط طبقہ اور غریب آبادی بھگت رہے ہیں۔
یاد رہے کہ بالواسطہ ٹیکس جن کی بھرمار نے پاکستانیوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے وہ ہمیشہ امرا کے حق میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کی ادائیگی سے اشرافیہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں تو ایسا آرڈیننس بھی لایا گیا جس میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو 300 ارب ٹیکس کی چھوٹ دی جا رہی تھی اور آج بھی پاکستان کے سب سے بڑے لینڈ مافیا کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی۔
حال ہی میں مرتب کردہ نیب کے قانون میں ترامیم کا ہدف بھی کاروباری طبقے کو مزید رعایات فراہم کرنا ہے اور اس کا اعلان خود وزیر اعظم نے بڑے طمطراق کے ساتھ کیا ہے۔
وزیر اعظم کی نیت پر شک کرنا تو نامناسب ہوگا کیونکہ ان کا انداز طخاطب انتہائی مخلصانہ دکھتا ہے لیکن کیا ان کو اتنے بڑے دعوے کرنا زیب دیتا ہے؟ جب کہ ان کا عمل اور ان کی حکمرانی ایسے تمام دعووں کی نفی کرتے ہیں۔ اگر تو ان دعووں اور وعدوں کا مقصد سیاست چمکانا اور خود کو دیگر سیاستدانوں سے برتر ثابت کرنا ہے تو یہ بھی مذہبی حوالوں کا نامناسب استعمال ہے۔ شاید چند لوگ ان نعروں سے بہل جائیں لیکن پھر عمران خان کے حریف بھی ان کے خلاف مذہب کا ہی سہارا لیں گے اور یوں اسی طرح پاکستان میں اقتدار کے حصول کے لئے مذہب ہمیشہ استعمال ہوتا رہے گا۔ مذہبی عقائد تمام پاکستانیوں کے لئے انتہائی مقدس ہیں۔ اور ان کو فرد کی ذات سے اٹھا کر معاشرے پر تھوپنا ناصرف ان کی توہین ہے، بلکہ کبھی کبھی یہی بات فساد کا موجب بھی بنتی ہے۔
رضا رومی نے یہ مضمون 2 جنوری 2020 کو لکھا تھا جسے نیا دور قارئین کے لئے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔
مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔