'حالیہ گرفتاریاں حکومت کے بجائے کسی اور کا کام لگتا ہے'

'حالیہ گرفتاریاں حکومت کے بجائے کسی اور کا کام لگتا ہے'
شیخ رشید والے معاملے پر حکومت کو چاہئیے کہ ایسے بیانات دینے والے بندے کو اٹھانے کے بجائے ان نیوز چینلوں کو سزا اور جرمانہ کرے جو بیانات نشر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت توہین والے قوانین کو پارلیمنٹ کے ذریعے سے مزید سخت اور مؤثر بنائے۔ عمران ریاض کی گرفتاری سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ان کو پہلے بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ عمران خان کے دور والا طرز حکومت ہے۔ یہ حکومت کے بجائے کسی اور کا کام لگتا ہے۔ موجودہ حکومت بے اختیار اور ناقص کارکردگی ہونے کے باوجود اقتدار سے چمٹی ہوئی ہے۔ شہباز شریف اتنے بااختیار نہیں جتنا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کہنا ہے قانون دان عبدالمعز جعفری کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان اس حکومت کی کبھی بھی مدد نہیں کریں گے، ان کو صرف الیکشن کی ضرورت ہے۔ عمران خان کو صفر سے ایک بیانیہ بنانا اور اس کو سنبھالنا آتا ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ اگر وہ موجودہ حکومت کے ساتھ کسی بھی معاملے پر بیٹھتے ہیں تو اس سے ان کی مقبولیت میں فرق آئے گا۔ وہ اپنے بیانیے اور مقبولیت کے بچاؤ کے لیے ملک کے دیوالیہ ہونے کی بھی پروا نہیں کریں گے۔ ان کی اپنی حکومت اتنی نالائق اور نکمی تھی مگر لوگ اس کو بھی بھول گئے ہیں تو ان کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ تھوڑے سے فائدے کے لیے موجودہ حکومت کے ساتھ بیٹھ جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اس وقت پکڑنا چاہئیے تھا جب ثاقب نثار ان کو صادق اور امین بنا رہے تھے۔ اب ان کو عجیب سے مقدمات میں پکڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ٹیریان کیس میں قانون کی نیت کہیں بدنیتی پر مبنی تو نہیں ہے۔ یہ کیس بچی کو حق دینے کے لیے ہے یا عمران خان کو گرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسی کوئی صورت حال ہے تو پھر عدالت کو اس کیس کو خارج کر دینا چاہئیے۔ یہ وہی شطرنج کا کھیل لگ رہا ہے جو نواز شریف کے ساتھ بھی کھیلا گیا۔ اس کو کھیلنے والے وہی پرانے کھلاڑی ہیں۔ جس لڑکی کے حق کے لیے یہ کیس لڑا جا رہا ہے کیا وہ اپنا حق مانگنے آئی تھی۔ اگر عدالت کو یہ محسوس ہو کہ اس کیس کا مقصد صرف کردار کشی ہے تو اس کیس سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہئیے۔

تحقیقاتی صحافی اعزاز سید نے کہا کہ عمران خان نے اپنے دور میں لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر پکڑنے کا گندا کھیل شروع کیا تھا اور اب بھی وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان باقی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ حکومت کا سیاسی لوگوں کو گرفتار کرنا کوئی مناسب اقدام نہیں اور ایسا وہ کب تک کریں گے۔ ابھی مزید گرفتاریاں ہوں گی اور سیاسی بحران میں اضافہ ہو گا۔ عمران خان موجودہ بحران کو ختم کرنے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئیے کہ پشاور والے دھماکے پر آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور عمران خان کو بھی دعوت دیں۔ کے پی کے کی سپیشل برانچ نے پولیس کو رپوٹ دی ہے کہ پولیس کے احتجاج میں تحریک انصاف کے لوگ شامل تھے۔ ٹیریان کیس لڑکی کو انصاف دینے کے لیے نہیں ہے، آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اس کیس کی کارروائی ہو رہی ہے۔ یہ کیس پہلے بھی ہوا تھا، اس وقت کے وکیل نے کیس واپس لے لیا تھا اور بعد میں ان کو حکومت میں ایک اعلیٰ عہدہ ملا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آئی جی کے پی کے نے پریس کانفرنس میں درست باتیں کی ہیں اور اپنی فورس کی درست ترجمانی کی ہے۔ ان کو بدلہ لینے کی بات نہیں کرنی چاہئیے تھی بلکہ ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی بات کرنی چاہئیے تھی۔ پاکستان نے افغانستان سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بین الاقوامی وعدوں کی پاس داری کرے۔

صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی عمران خان والے دور کی طرح کے مقدمات بنا رہی ہے۔ اس سے ملک کی کوئی خدمت نہیں ہو رہی بلکہ اس سے نفرت کی سیاست پروان چڑھے گی۔ آئی جی پولیس جذباتی نظر آئے۔ پولیس کے چند اہلکاروں نے کچھ احتجاج کیا ہے جس پر آئی جی نے کہا کہ یہ سازش ہوئی اور وہ ایسے افراد سے واقف ہیں۔ ان کا اشارہ تحریک انصاف کی طرف تھا۔ ان مظاہروں میں کچھ افراد کا تعلق پولیس سے نہیں تھا۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ شیخ رشید کے لگائے ہوئے الزامات سنگین ہیں۔ یہ سول نوعیت کے جرائم ہیں اس کے لیے قانون کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ عمران ریاض اور باجوہ صاحب کو آپس کے معاملات خود طے کر لینے چاہئیں۔

میزبان رضا رومی نے کہا کہ عمران خان کو 2011 سے شفاف ہونے کا سرٹیفکیٹ ملا ہوا ہے، اب ادارے ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ان کی تمام بیساکھیاں گر گئی ہیں اس لیے اب ان کا تختہ بھی گرے گا۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔