پاکستان میں بچوں سے مزدوری کروانے کا افسوسناک عمل جاری و ساری ہے جس کے نتیجے میں ان بچوں کا بچپن تباہ ہو جاتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بچے بھٹیوں میں بلا معاوضہ مزدوری کرتے ہیں۔ اس کے باعث نہ صرف ان کی جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کی دماغی صحت بھی خرابی کا شکار ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد بچے مزدوری کرتے ہیں تاکہ اپنے خاندان کا معاشی بوجھ اٹھا سکیں۔ ان بچوں کے خاندان کم ترین معاوضوں پر کام کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان خاندانوں کیلئے بقا صرف اسی بات میں ممکن ہے کہ خاندان کے سارے افراد روزی کمائیں۔
یہ بچے جہاں کام کرتے ہیں وہاں کہ حالت زار انتہائی خراب ہوتی ہے۔ مجبوریوں کے باعث یہ بچے سخت گرم مرطوب موسم میں کام کرتے ہیں۔ ان کے مالکوں کو ان بچوں کی فکر نہیں ہوتی، انہیں محض منافع سے غرض ہوتی ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق زیادہ تر مزدوری کرنے والے بچے یتیم ہوتے ہیں یا پھر افراط زر، اور اپنے والدین کی بے روزگاری کے باعث انہیں کام کرنا پڑتا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) نے غربت کو بچوں کے مزدوری کرنے کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ چونکہ وطن عزیز میں غربت مزید بڑھ رہی ہے، اس لئے صورحال مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ اس ضمن میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بچوں کیلئے بڑے فنڈز قائم کرنا چاہئیں تاکہ بچوں کو مجبوراً مزدوری نہ کرنی پڑے۔ بچوں کے مزدوری کرنے کا عمل ملک کے تاریک مستقبل کا باعث بنتا ہے۔
اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے نئی نسل کہ حفاظت کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ کوئی بھی اپنی مرضی سے مزدور نہیں بننا چاہتا۔ دنیا نے انہیں مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ بچے اس لئے محنت نہیں کرتے کہ وہ امیر ہو جائیں گے بلکہ ان کی محنت محض اپنے خاندان کیلئے دو وقت کی روٹی کے حصول کیلئے ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب میں اینٹوں کی بھٹیوں میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد 126,779 ہے جن میں سے 32,727 بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ان بچوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ پین اور کتابیں لیے سکول جائیں لیکن ان کے ارمان محض خیالی دنیا تک ہی محدود رہتے ہیں۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت ان بچوں کو فنڈز مہیا کرے تا کہ بچوں کو صحت ، تعلیم اور چھت میسر آ سکے۔ یہ بچے پاکستان کا مستقبل ہیں۔