نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے:  اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے درخواست ہے کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے جب کہ الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے۔

نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے:  اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان

نااہلی کی مدت سے متعلق کیس کی براہ راست سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا ہے نواز شریف تاحیات نااہلی فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ نااہلی کی مدت سے متعلق کیس کی براہ راست سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 7 رکنی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال کرنے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ عدالت سمیع اللہ بلوچ کے مقدمے پر نظر ثانی کرے ۔ نواز شریف تاحیات نااہلی فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ عدالت سے درخواست ہے کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے جب کہ الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے۔

اس دوران میر بادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 2018 میں درخواست دائر کی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا۔ اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل ہو چکا ہے۔ الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 آنے پرتاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کر رہا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا الیکشن ایکٹ کی ترمیم کو کسی نے چیلنج کیا؟ تمام ایڈووکیٹ جنرلز اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں یا مخالفت؟

چیف جسٹس کے پوچھنے پر تمام ایڈووکیٹ جنرلز نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کر دی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 اور63 میں فرق کیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ممبران کی اہلیت جب کہ 63 نااہلی سے متعلق ہے۔  آرٹیکل62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے، اس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہوچکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔

اس دوران جسٹس منصور نے سوال کیا کہ سوال یہ ہےکہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ممکن ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جو لکھا ہے اسے قانونی سازی سے بدلا جاسکتا ہے؟ قتل اور غداری جیسے سنگین جرم میں کچھ عرصے بعد الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن معمولی وجوہات کی بنیاد پرتاحیات نااہلی غیرمناسب نہیں لگتی؟

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ برس 11 دسمبر کو تاحیات نااہلی کے معاملے پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی شق میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل سے معاونت طلب کی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کو عدالتی بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھجوایا تھا جبکہ گذشتہ روز اس کیس کے لیے سپریم کورٹ نے سات رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔