سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس میں اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دیتے ہوئے تین سوالات کے جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی پر بات کریں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کی۔ فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔
فل کورٹ کی جانب سے اب تک اس کیس کی 4 سماعتوں میں دیگر درخواست گزاروں سمیت مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کے وکلا کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حق میں دلائل مکمل کیے جاچکے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل سے پہلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس کہاکہ آپ Last but not the least ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ کیس قابل سماعت ہونے پردلائل دے چکا ہوں۔ تین سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کا جواب دوں گا، میں آرٹیکل 191اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا۔ پارلیمنٹ کے ماسٹرآف روسٹر ہونے کے سوال پر دلائل دوں گا۔ اپیل کا حق دیئے جانے پر دلائل دوں گا۔ فل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے سوال پر بھی دلائل دوں گا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 14,20,22,28 میں دیے گئے حقوق قانون سے مشروط ہیں۔ جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی۔ آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اگر 1973 کے بعد سے آرٹیکل 191 کے تحت کچھ نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے پارلیمنٹ نے تسلیم کیا آرٹیکل 191 مزید قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 191 میں ’لا‘ کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل بولےکہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا۔ رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے۔آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمنٹ سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا۔
اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 191 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے پابندی نہیں لگاتا۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 191 میں صرف لا کا لفظ نہیں۔ یہ ’سبجیکٹ ٹو لا‘ لکھا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں لفظ ’لا‘ 2 سو سے زائد مرتبہ آیا ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں جہاں بھی یہ لفظ لکھا وہ ایک تناظر میں دیکھا جائے گا۔ یہ ‘ون سائز فٹس آل’ والا معاملہ نہیں ہے۔ جہاں بھی یہ لفظ لکھا ہے اس کی نوعیت الگ ہے۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191میں پھر ’سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹوشن اینڈ لا‘ کیوں ہے۔یہ پھر صرف سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹیوشن کیوں نہیں رکھا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا ہے۔ پارلیمنٹ نے آئین کو جاندار کتاب کے طور پر بنایا کہ جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے۔
جسٹس اعجاز الاحسن بولےکہ آئین ساز یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز تب تک بنائے جب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو جاتی۔ آئین سازوں کی نیت سے کہیں واضح نہیں ہے کہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز بدلے جاسکتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے بھی قانون ہوں گے۔ عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عملدرآمد ضروری ہے۔