چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ریمارکس میں کہا کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیر ہوئی۔ تاخیر کی یہ وجہ تھی کہ سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے۔ کیس کو حل کرنے کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ فل کورٹ بنایا جائے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست دکھائی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں وفاقی حکومت نے تمام درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی۔
وفاقی حکومت نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔ جواب میں حکومت نےموقف اپنایا کہ پارلیمنٹ کےقانون کیخلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ استدعا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائیں۔ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے۔آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔
مذکورہ ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کا کوئی اختیار واپس نہیں کیا گیا۔میرٹ پر بھی پارلیمانی قانون کے خلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے معاملہ سنا ہی نہیں۔کیس کو حل کرنے کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ فل کورٹ بنایا جائے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں 9درخواستیں ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ ایکٹ پڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
وکیل نے کہاکہ جی میں ایکٹ پڑھنے لگا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ماضی کو دفن کردیں۔
قبل ازیں پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ پہلے روز بغیر پروٹوکول سپریم کورٹ پہنچے اور وہ اپنی ذاتی گاڑی میں عدالت آئےجہاں عملے نے ان کا استقبال کیا۔
اس موقع پر عملے سے گفتگو میں چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج میری بہت ساری میٹنگز اور فل کورٹ ہے۔ آپ لوگوں سے تفصیلی ملوں گا۔ آپ سب کا تعاون چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لوگ سپریم کورٹ خوشی سے نہیں آتے، اپنے مسائل ختم کرنے کیلئے عدالت آتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے عملے کو ہدایت کی ہےکہ عدالت آنے والے لوگوں سے مہمان جیسا سلوک کریں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یقیناً کچھ لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے۔انصاف کے دروازے کھلے اور ہموار رکھیں۔ آنے والے لوگوں کی مدد کریں۔