سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فل کورٹ کی براہ راست سماعت جاری

وفاقی حکومت نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔ جواب میں حکومت نےموقف اپنایا کہ پارلیمنٹ کےقانون کیخلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ استدعا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائیں۔ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے۔آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فل کورٹ کی براہ راست سماعت جاری

نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے   فل کورٹ بینچ نے ’ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر ملکی تاریخ میں پہلی بار براہ راست سماعت شروع کردی۔ عدالت عظمیٰ نے فل کورٹ بنانے کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے گزشتہ روز فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں وفاقی حکومت نے تمام درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی۔

وفاقی حکومت نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔ جواب میں حکومت نےموقف اپنایا کہ پارلیمنٹ کےقانون کیخلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ استدعا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائیں۔ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے۔آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔

مذکورہ ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کا کوئی اختیار واپس نہیں کیا گیا۔میرٹ پر بھی پارلیمانی قانون کے خلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا۔اجلاس میں عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا معاملہ زیر غور آیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ 9 درخواستیں ہیں اور وکلا کون کون ہیں؟ خواجہ طارق رحیم صاحب آپ دلائل کا آغاز کریں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا دلائل دوبارہ سے شروع ہوں گے کیونکہ نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔ فل کورٹ بنانے کی 3 درخواستیں تھیں جن کو منظور کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا آج پہلا ورکنگ ڈے ہےقاضی فائز عیسیٰ نے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کردیا۔

یاد رہے سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر 13 اپریل کو عملدرآمد روکا تھا۔  

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ مفاد عامہ کے مقدمات میں چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنے سے متعلق ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئیر پر مشتمل کمیٹی کر سکے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف لیا تھا اور حلف لینے کے بعد پہلا مقدمہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔