پریکٹس پروسیجر ایکٹ،کہہ سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں مداخلت ہوئی تو اچھی ہوئی: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں لفظ “لاء” کا مطلب ہے کہ وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے۔پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے جیسی قانون سازی نہیں کر سکتی۔ موجودہ قانون سے یہ اصول متاثر نہیں ہوا۔ایکٹ کو سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے۔

پریکٹس پروسیجر ایکٹ،کہہ سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں مداخلت ہوئی تو اچھی ہوئی: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ چار سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے کہ ایک کیس ختم نہیں ہوا۔ ہاں سپریم کورٹ میں مداخلت ہوئی کیونکہ چیف جسٹس اپنا کام نہیں کر رہے تھے۔  کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ مداخلت بھی ہوئی تو اچھی ہوئی۔ کئی سال کیس نہ لگے اور ہم کہہ دیں ہماری مرضی ہم کسی کو جوابدہ نہیں؟ ہر ادارہ اپنا احتساب کرے اس سے پہلے کہ کوئی اور کرے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کی۔ فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔

ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ کیس میں فریق نہیں ہوں۔ عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا۔سوال ہوا کہ کیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتے ہیں۔عدالت کو دو فیصلوں پر دلائل دوں گا۔ ایک بار کاکڑ کیس کا حوالہ دوں گا۔ دوسرا سپریم کورٹ ریویو ایکٹ سے متعلق فیصلے کا حوالہ دوں گا۔ وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 191 میں لفظ “لاء” کا مطلب ہے کہ وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے۔ ان فیصلوں اور موجودہ کیس میں فرق ہے مگر ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

فیصل صدیقی نے کہاکہ ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 میں "لا" کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔ کنفیوژن ہے کہ آرٹیکل 191 میں لاء کے لفظ کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ رولز میں ردو بدل ہے یا نہیں۔ آرٹیکل 191 میں لفظ "لاء" کا مطلب ہے کہ وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے۔   سپریم کورٹ رولز میں الفاظ کی تعریف کا الگ سے سیکشن ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ اگر ’’لا‘‘ کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہوتا تو آئین سازوں نے یہی لکھا ہوتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں۔مسٹر صدیقی! آپ صرف اپنے دلائل پر توجہ دیں۔

ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ رولز میں لا کی تعریف لکھی ہے۔ سپریم کورٹ رولز بناتے وقت کوئی ابہام نہیں تھا کہ لا کا کیا مطلب ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے  دلائل کے دوران سوال کرنے سے روکنے کے باوجود جسٹس منیب اختر نے سوال  کیا کہ صرف یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191میں لا کا کیا مطلب ہے؟  چیف جسٹس نے جسٹس منیب سے مکالمہ کہا کہ اگر آپ نے پہلے ہی ذہن بنا لیا تو فیصلے میں لکھ لیجیے گا ۔ وکیل کو جیسے مرضی دلائل دینا ہوں گے ، دے گا۔

 جسٹس منیب اختر نے کہاکہ بنچ کا حصہ ہونے پر میراحق ہے کہ میں سوال کروں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ظاہر ہے آپ سوال کر سکتے ہیں لیکن پہلے وکیل دلائل تو مکمل کرنے دیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ معذرت کے ساتھ میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور  وکیل اس کا جواب دیں۔

چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے کہاکہ ہم یہاں وکلا کو سننے آئے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ بطور جج سوال کرنا میرا حق ہے۔ اگر اس طرح سوال کے دوران خلل ڈالیں گے تو یہ نامناسب ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ خلل نہیں ڈال رہا۔ وکیل کو سن لیتے ہیں پھر سوالات  کا جواب آ جائے گا۔ ہمیں پہلے ہی رائے دینے کے بجائے فیصلہ لکھنا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجازالاحسن کے سوالات پر چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس دیے تو وکیل فیصل صدیقی مسکرا دیے۔

چیف جسٹس نے وکیل کے مسکرانےپر تنبیہ کرتے ہوئے کہاکہ اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں۔ 4سماعتوں سے کیس سن رہے ہیں۔ کئی کیسزالتوا کا شکار ہورہے ہیں۔ اپنے ساتھی ججز سے درخواست ہے اپنے سوالات کو روک کر رکھیں۔بنچ میں ہر کوئی سوال کرنا چاہتا ہے لیکن وکیل کی کوئی دلیل پوری تو ہونے دیں۔ 4سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہے ایک کیس ختم نہیں ہوا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے جیسی قانون سازی نہیں کر سکتی۔ موجودہ قانون سے یہ اصول متاثر نہیں ہوا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا لیجسلیٹیو انٹریز پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ پر عائد تمام آئینی پابندیوں کی خلاف ورزی ہوئی۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ پر 4 پابندیاں ہیں۔   پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔  ہر پابندی کو ایکٹ کی شقوں کے ساتھ ملا کر بتاوں گا کہ پارلیمنٹ نے کیسے خلاف ورزی نہیں کی۔ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو سپروائز کر سکتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپروائز کرنے کا مطلب تو سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا ہو گا۔

وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کے سپروائزری اختیار کی بھی حدود ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آئین نے یہ کیوں کہا کہ عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ الگ الگ ہیں؟ ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ایکٹ کو سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا لیجسلیٹیو اینٹریز پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر آرٹیکل 191 کو لیجسلیٹیو اینٹری 58 کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار تھا۔ صلاح الدین نے اسی کا حوالہ دے کر کہا کہ پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ رولز ختم بھی کر سکتی ہے۔ قانون میں اپیل لارجر بنچ کے سامنے بھیجنے کا کہا گیا۔کیا یہ لارجر بنچ تمام نئے ججز پر مشتمل ہو گا؟ کیا پہلے کیس سننے والے بنچ میں ہی نئے جج شامل کر کے لارجر بنچ بنایاجائے گا؟

فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ آئین کے تحت دیا گیا ایک اختیار قانون سازی کے اختیار کو ختم کہاں کرتا ہے؟ رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔ رول بنانے کو مگر قانون سے مشروط کیا گیا ہے۔  قانون سازی پر پابندی کہاں لگائی گئی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جو آرٹیکل آپ پڑھ رہے ہیں اس کی لینگوئیج پابندی لگاتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایک چیز جو آئین میں نہ ہو اس کو قانون سازی سے بنا دینا کہاں ہوتا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس اختیار قانون سازی ہے۔ پارلیمنٹ نے انصاف تک رسائی کی ہی ایک قانون سازی کی ہے۔ جرمنی میں ایک نظام وضع کیا گیا جہاں ماسٹر آف روسٹر نہیں ہوتا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 جب بھی استعمال ہوا ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انتظامی طور پر بنائے گئے رولز جوڈیشل اختیاراستعمال کرتے ہوئے بھی بائنڈنگ ہیں؟ کوئی بنچ بیٹھ کر رولز کو غیر آئینی کہہ سکتا ہے؟ کیا بنچ 1980 کے رولز سے متعلق آرڈر دے سکتا ہے؟

فیصل صدیقی نے کہا کہ چیف جسٹس کے کردار کو ریگولیٹ کرنے سے سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں ہوتا۔

جسٹس منیب اختر فیصل صدیقی سے سوال کرنے لگے تو چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو روکتے ہوئے کہا کہ پہلے میرے سوال کا جواب دیں بعد میں دوسرے سوال پر آئیں۔میں نے آج سب سے کم سوال پوچھے ہیں۔ ماسٹر آف روسٹر کو اتنا تو اختیار دیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا پارلیمان کہہ سکتی ہے کہ کمیٹی میں تین نہیں پانچ ججز ہوں۔

چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ میں مداخلت ہوئی۔ آپ یہ کیوں نہیں کہتے ہاں مداخلت ہوئی کیونکہ چیف جسٹس اپنا کام نہیں کر رہے تھے۔سادہ سی باتیں ہیں آپ کو ہچکچاہٹ کیا ہے ؟ کہہ سکتے ہیں ناں اگر یہ مداخلت بھی ہوئی تو اچھی ہوئی۔ کئی سال کیس نہ لگے اور ہم کہہ دیں ہماری مرضی ہم کسی کو جوابدہ نہیں؟ ہر ادارہ اپنا احتساب کرے اس سے پہلے کہ کوئی اور کرے۔

 دریں اثنا ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے  دلائل مکمل کرتے ہوئےایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی اور کہا کہ ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت ہیں مگر میرٹ پر خارج کی جائیں۔

وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل نے ایکٹ کی حمایت میں دیئے گئے دلائل اپنالئے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو کل سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت کل صبح 11:30  بجے تک ملتوی کردی۔