تاحیات نااہلی کیس، 2002 میں قائداعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوجاتے: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس سے یہ تاثرنہ لیا جائےکہ عدالت کسی مخصوص جماعت کی حمایت کررہی ہے۔ایک آئینی مسئلہ ہے جس کو ایک ہی بار حل کرنے جارہے ہیں۔

تاحیات نااہلی کیس، 2002 میں قائداعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوجاتے: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال یا تاحیات سے متعلق کیس کی سماعت 4 جنوری تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ تمام شرائط پہلے ہوتی تو قائد اعظم بھی نااہل ہو جاتے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کی۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 7 رکنی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
 سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال کرنے کی قانون سازی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ انہوں نے آرٹیکل62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلے کے دوبارہ جائزے کی استدعا  کردی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل!آپ کا مؤقف کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت سے درخواست ہے کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے۔ الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیوں کہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے۔
اٹارنی جنرل نے آئین کا آرٹیکل 62،63 اور رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے اہلیت اور نااہلی کی تمام آئینی شرائط پڑھ کر عدالت میں سنائیں اور کہا کہ کاغذات نامزدگی کے وقت 62 اور 63 دونوں شرائط دیکھی جاتی ہیں، انٹری پوائنٹ پر دونوں آرٹیکل لاگو ہوتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کچھ شقیں تو حقائق سے متعلق ہیں وہ آسان ہیں، کچھ شقیں مشکل ہیں جیسے اچھے کردار والی شق، جواباً اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم کہہ سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اچھے کردار کے ہیں؟ جس پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اسلامی تعلیمات کا اچھا علم رکھنا بھی ایک شق ہے۔ پتہ نہیں کتنے لوگ یہ ٹیسٹ پاس کرسکیں گے۔   الیکشن ایکٹ کی یہ ترمیم چیلنج نہیں ہوئی۔جب ایک ترمیم موجود ہے تو ہم پرانے فیصلے کو چھیڑے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔
آئین یہ بھی نہیں کہتا تھا اپ کو رکن اسمبلی بننے کے لیے گریجویٹ ہونا لازم ہے۔ بعد میں ایک ایسا قانون شاید پرویز مشرف کے زمانے میں آیا تھا۔ سمیع اللہ بلوچ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا چونکہ نااہلی کی مدت مقرر نہیں اس لیے تاحیات ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تاثر ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک قانون سے سپریم کورٹ فیصلے کو اوور رائٹ کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو کیا اب ہم سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دوبارہ دیکھ سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں عدالت نے ایک نقطے کو نظر انداز کیا۔  عدالت نے کہا کرمنل کیس میں بندا سزا کے بعد جیل بھی جاتا ہے۔اس لیے نااہلی کم ہے۔عدالت نے یہ نہیں دیکھا ڈیکلیریشن 62 ون ایف اور کرمنل کیس دونوں میں ان فیلڈ رہتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تو گناہ گارہیں اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں۔ آرٹیکل62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہوچکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہےکہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ممکن ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ نااہلی کی مدت کا تعین آئین میں نہیں، اس خلا کو عدالتوں نے پُر کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن ایکٹ میں دی گئی نااہلی کی مدت آئین سے زیادہ اہم تصور ہو گی؟ آرٹیکل 63 کی تشریح کا معاملہ ہے۔سنگین غداری کرے تو الیکشن لڑ سکتا ہے۔ سول کورٹ سے معمولی جرائم میں سزا یافتہ الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کوختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جولکھا ہے اسے قانون سازی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل62 ون ایف میں نااہلی کی میعاد کا ذکرنہیں ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے نااہلی تاحیات رہے گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قتل اورملک سے غداری جیسے سنگین جرم میں آپ کچھ عرصے بعد انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ معمولی وجوہات کی بنیاد پرتاحیات نااہلی غیرمناسب نہیں لگتی؟۔ عدالت کسی شخص کے خلاف ڈکلیئریشن کیسے دے سکتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا سپریم کورٹ نے ڈکلئیریشن ازخود اختیار استعمال کرکے دی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل62 ون جی اور آرٹیکل 63 ون جی کی زبان ایک سی ہے۔ آرٹیکل63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اورنظریے کی خلاف ورزی کرنے والے کی نااہلی 5 سال ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگرایک شخص کےخلاف مقدمہ ہوتو وہ 2 سال سزا کاٹ کر واپس آسکتا ہے۔ مگرایک شخص کےخلاف مقدمہ نہ ہوبلکہ ڈکلیئریشن آجائے تو وہ دوبارہ آہی نہیں سکتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 62اور 63 میں فرق کیا ہے؟ آرٹیکل 62کی ذیلی شقیں مشکل پیداکرتی ہے جو کردار کی اہلیت سے متعلق ہے۔کسی اور کے کردار کا تعین کیسے کیاجاسکتا ہے؟ کیا کوئی شخص حلفیہ طورپرکہہ سکتا ہے کہ وہ اچھے کردارکا مالک ہے؟ کیا اٹارنی جنرل اچھے کردار کے مالک ہے؟ جواب نا دیجییے گا صرف مثال کے لیے پوچھ رہا ہوں، سپوٹر کہیں گے آپ کا کردار اعلی ہے۔ مخالفین کہیں گے کہ بدترین کردار کا کہیں گے۔ اگر 2002 میں قائد اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب غیر منتحب لوگ قوانین بنائیں گے تو ایسے ہی ہوگا۔
اس موقع پر جہانگیرترین کے وکیل مخدوم علی خان عدالت میں پیش  ہوئے اور انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال مقرر کرنے کے حق میں ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس فوجی آمر نے 1985 میں آئین کو روندا ، اسی نے آرٹیکل 62اور 63 کو آئین میں شامل کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 62اور 63 پر مہر لگائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کیسے آئین میں اہلیت کا معیار مقرر کرسکتا ہے؟۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف صوبوں کے مابین تنازعات پر ڈکلریٹو فیصلہ دے سکتی ہے۔
درخواست گزار ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ 50 سال سے قانون میں اراکین کی اہلیت کا معیار طے ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر اس سے پہلے کوئی 62 ون ایف کے تحت نااہل کیوں نہ ہوا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جھوٹ بولنے پر سزا تاحیات ہے۔ قتل یا غداری پر سزا محدود ہے اور وہ الیکشن بھی لڑسکتا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ایک شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہو جاتی؟ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ سزا کاٹ لینے کے بعد بھی کبھی انتخابات نہ لڑ سکے؟ آئین میں ہر سزا کی مدت ہے تو نااہلی تاحیات کیسے ہو گئی؟
عدالت عظمیٰ نے ویڈیو لنک پر وکلا کو دلائل سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس کیس میں سنجیدہ ہیں تو اسلام آباد آئیں۔ ہم آج اس کیس کو ملتوی کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس سے یہ تاثرنہ لیا جائےکہ عدالت کسی مخصوص جماعت کی حمایت کررہی ہے۔ایک آئینی مسئلہ ہے جس کو ایک ہی بار حل کرنے جارہے ہیں۔ کوشش ہوگی کہ 4 جنوری کو کیس کی سماعت مکمل کریں اور مشاورت کے بعد عدالتی معاون بھی مقرر کرسکتے ہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی سے متعلق کیس4 جنوری دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردیا۔