Get Alerts

قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے ماحولیاتی منصوبوں کو ترجیح دی جائے: آئی ایم ایف

آئی ایم ایف کی ٹیم نے شہری اور دیہی علاقوں میں توانائی کی بچت کرنے والی عمارتوں کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ دریاؤں، نالوں، دیگر آبی گزرگاہوں اور جنگلات کے قریب تعمیرات کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کی سفارش کی ہے،آئی ایم ایف کے مطابق ماحولیاتی مطابقت کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری قدرتی آفات کے خطرے کو کم کرسکتی ہے

قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے ماحولیاتی منصوبوں کو ترجیح دی جائے: آئی ایم ایف

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ سیلاب اور خشک سالی سمیت شدید موسمی واقعات سے پیدا ہونے والی قدرتی آفات کے خلاف لچک پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر ماحولیاتی مطابقت کے منصوبوں کو ترجیح دے۔

نیا دور  کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم نے شہری اور دیہی علاقوں میں توانائی کی بچت کرنے والی عمارتوں کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ دریاؤں، نالوں، دیگر آبی گزرگاہوں اور جنگلات کے قریب تعمیرات کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کی سفارش کی ہے۔

یہ بات منگل کے روز سامنے آئی جب فنڈ کے 4 رکنی تکنیکی مشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھی، تاکہ موسمیاتی لچک کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کی اضافی فنانسنگ کی ملک کی درخواست کی تیاری کی جاسکے۔

دریں اثنا سرکاری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ مشن چیف نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف کی 9 رکنی اسٹاف ٹیم 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کی کارکردگی کا 2 ہفتوں پر محیط جائزہ لینے کے لیے 3 مارچ کو اسلام آباد پہنچے گی، یہ مشن عارضی طور پر 15 مارچ تک اپنا پہلا 2 سالہ جائزہ مکمل کرے گا۔

ذرائع کے مطابق ریسیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسیلٹی (آر ایس ایف) کے تحت کلائمیٹ فنانسنگ سے متعلق تکنیکی مشن نے نا صرف وفاقی اور صوبائی سطح پر بلکہ سرکاری اداروں کے اندر بھی موسمیاتی مطابقت کے اقدامات کو عوامی سرمایہ کاری کی حکمت عملی کا لازمی حصہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا، مشن نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کو بچاؤ اور بحالی کے بجائے تیاری پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

دورے کے دوران اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کس طرح ’گرین بجٹنگ‘ کر رہی ہیں، اور یہ دونوں سطح کس طرح معلومات اور مالی اعانت کا تبادلہ کر رہی ہیں، مشن کو ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ حکمت عملی، پانی اور فضائی آلودگی کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ کس طرح گرین بجٹ کو ٹیگ کیا جا رہا ہے، ٹریک کیا جا رہا ہے اور اس کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

حکومت نے مشن کو بتایا کہ نئے بلڈنگ کوڈ پہلے ہی تیار کیے جا چکے ہیں اور حال ہی میں ان پر عمل درآمد کے لیے صوبائی حکام کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔

آبی گزرگاہوں پر تجاوزات
 اس کے ساتھ ہی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل نے دریاؤں اور آبی گزرگاہوں پر تجاوزات کے حوالے سے تفصیلات نہ ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

سینیٹر شہادت اعوان کی زیر صدارت اجلاس کے دوران وزارت آبی وسائل نے انکشاف کیا کہ سپارکو کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگست 2024 کے بعد سے پنجاب میں بڑی تجاوزات نہیں ہٹائی گئیں۔

رپورٹ میں سرگودھا آبپاشی زون میں 153 اور ملتان ایریگیشن زون میں 676 تجاوزات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

فیڈرل فلڈ کمیشن (ایف ایف سی) کے نمائندے نے دعویٰ کیا کہ تمام تجاوزات اگست 2024 سے پہلے ہٹا دی گئی تھیں، لیکن وہ اس دعوے کی تصدیق کے لیے اعداد و شمار فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

کمیٹی نے ایف ایف سی اور وزارت آبی وسائل کو ہدایت کی کہ وہ ایک ماہ کے اندر تجاوزات کو ہٹانے کے لیے متعلقہ صوبوں کے ساتھ تعاون کریں، اور اگلے اجلاس میں تازہ ترین رپورٹ پیش کریں۔

سینیٹر شہادت اعوان نے خبردار کیا کہ اگر رواں سال مون سون سے قبل ان تجاوزات کو نہ ہٹایا گیا تو یہ مجرمانہ فعل سمجھا جائے گا، اور تمام ذمہ داروں کو اس جرم کی سزا دی جائے گی، کیونکہ سپریم کورٹ پہلے ہی تجاوزات ہٹانے کا حکم دے چکی ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ توانائی، ٹرانسپورٹ، مواصلات اور صحت جیسے اہم شعبوں میں بنیادی ڈھانچے کے اثاثوں کی نشاندہی کرے جو سیلاب، سمندری طوفان اور ہیٹ ویو جیسی آب و ہوا سے متعلق قدرتی آفات کے خطرے سے دوچار ہیں۔

آئی ایم ایف نے موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کے لیے شعبے کی مخصوص شراکت کی وضاحت کرنے کی بھی سفارش کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی موافقت کے واضح اہداف اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

آر ایس ایف کے تحت اضافی فنانسنگ کے اہل ہونے کے لیے پاکستان کو مستقبل کے بلڈنگ کوڈز اور اربن پلاننگ گائیڈ لائنز میں آب و ہوا کی لچک اور تخفیف کے اقدامات کو شامل کرکے سیکٹرل پلاننگ اور پروجیکٹ کی تیاری کے عمل میں موسمیاتی لچک اور مطابقت پذیری کو شامل کرنے کے اقدامات کو حتمی شکل دینے کی ضرورت ہوگی۔

آر ایس ایف فنڈنگ، ایک نسبتاً نئی فنڈنگ ہے، یہ ان ممالک کے لیے دستیاب ہوگی جو موافقت کے ذریعے موسمیاتی تباہ کاریوں کے خلاف لچک پیدا کرنے کے لیے اعلیٰ معیار کی اصلاحات کا عہد کرتے ہیں اور 30 سال میں یہ رقم واپس کر سکتے ہیں، جس میں 10 سالہ رعایت بھی شامل ہے، اور عام طور پر ای ایف ایف شرائط سے سستا ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان نے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف میں مزید ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کا اضافہ کرے۔

عالمی مالیاتی فنڈ پہلے ہی پاکستان کو مشورہ دے چکا ہے کہ وہ ہر سال جی ڈی پی کا ایک فیصد یعنی موجودہ تخمینوں کی بنیاد پر ایک ہزار 240 ارب روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری ماحولیاتی لچک اور موافقت کی اصلاحات میں کرے تاکہ شدید موسمی حالات، خاص طور پر سیلاب کے بار بار اور بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے، معاشی ترقی کو برقرار رکھنے اور عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے تیار رہا جاسکے۔

آئی ایم ایف کا خیال تھا کہ ماحولیات سے مطابقت رکھنے والے بنیادی ڈھانچے میں اس طرح کی سرمایہ کاری قدرتی آفات کے خطرے کے منفی نمو کے اثرات کو ایک تہائی تک کم کر سکتی ہے، جب کہ تیز تر اور زیادہ مکمل بحالی کو یقینی بنا سکتی ہے۔

آئی ایم ایف نے نوٹ کیا کہ موافقت کے بنیادی ڈھانچے میں جی ڈی پی کی تقریباً ایک فیصد سرمایہ کاری سے پاکستان کی ماحولیاتی لچک میں اضافہ ہوگا اور ملک اس مسئلے سے نمٹنے کے قابل ہوسکے گا۔