ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47 ویں صدر منتخب ہو چکے ہیں اور یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا امریکہ کی کلائمیٹ چینج کے حوالے سے پالیسیاں اورعالمی وعدے نئے صدر کے آنے سے بدل سکتے ہیں؟ یہ سوال پوری دنیا میں ماحولیاتی ماہرین، سماجی کارکنوں اور نوجوانوں کے لئے بہت اہم اور تشویش کا باعث ہے کیونکہ امریکہ کی ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے عالمی وعدوں اور معاہدوں سے دستبرداری کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ٹرمپ کے حوالے سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی معاہدے پیرس ایگریمنٹ سے دوبارہ دستبردار ہو جائیں گے۔
پیرس معاہدہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پابند بین الاقوامی معاہدہ ہے۔ اقوام متحدہ کی سربراہی میں دسمبر 2015 کو پیرس موسمیاتی تبدیلی کانفرنس آف دی پارٹیز یا سی او پی 21 میں 196 ممالک نے اس معاہدے کو تسلیم کیا تھا۔
یاد رہے! اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی کا 29 واں اجلاس آذربائیجان باکو میں 11 نومبر سے 22 نومبر کو ہو گا۔ یہ کانفرنس عالمی موسمیاتی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے منعقد ہوتی ہے، خاص طور پر پیرس معاہدے میں طے پانے والے اہداف پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس کا مقصد عالمی درجہ حرارت کو محدود کرنا، موسمیاتی اثرات کے ساتھ موافقت کرنا، اور ان کوششوں کے لیے ضروری مالیات کو متحرک کرنا ہے۔
پیرس معاہدہ اور امریکہ کی دستبرداری
پیرس ایگریمنٹ کا مقصد عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم تک محدود رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ درجہ حرارت میں اضافہ 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود ہو۔ تاہم حالیہ برسوں میں متعدد عالمی رہنماؤں نے اس صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت کو 5۔1 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے پر زور دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کے مطابق 5۔1 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد عبور کرنے سے دنیا کلائمیٹ چینج کے اثرات مزید خوفناک شکل میں دیکھ سکتی ہے۔ حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں شدید موسمی واقعات جیسے، طوفانی بارشوں، شدید خشک سالی، گرمی کی لہریں، سمندر کی بلند ہونے والی سطح اور سیلابوں میں اضافہ ہے۔
پیرس معاہدے کے تحت تمام ممالک 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں جس میں کاربن کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دوسری کیمائی گیسیز جو فوسل فیول یعنی تیل، کوئلہ اور قدرتی گیس کے علاوہ صنعتی عمل، زراعت، عمارتی تعمیرات، ٹرانسپورٹ، جنگلات کا گھٹنا اور کچرے کی مینجمنٹ سے پیدا ہونے والی گیسوں کے اخراج میں 43 فیصد تک کمی کریں گے۔ تاہم اس سلسلے میں ابھی تک بڑی کامیابی سامنے نہیں آئی البتہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے ہر سال منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس سی او پی میں ممالک کے رہنما پیرس معاہدے پر پابند رہنے کے وعدے ضرور کرتے ہیں۔
چائنہ اور انڈیا سمیت امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیز کا اخراج کرتے ہیں، لیکن امریکہ کی کلائمیٹ چینج کے حوالے سے واضح پالیسی ہمیشہ سے ہی تنقید کی زد میں رہی ہے۔
پیرس معاہدہ 2016 سے فعال ہے اور امریکہ کے اُس وقت کے صدر بارک اوبامہ نے 3 ستمبر 2016 کو اس معاہدے میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی تھی، جس میں 2025 تک 2005 کی سطحوں کے مقابلے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 26-28 فیصد کم کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ تاہم اوبامہ کے بعد نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جون 2017 کو اعلان کیا کہ امریکہ اس معاہدے کا مزید حصہ نہیں ہے۔ جس کی وجہ اقتصادی اثرات کے بارے میں خدشات اور یہ یقین تھا کہ یہ امریکہ کو دوسرے ممالک کے مقابلے میں نقصان پہنچاتا ہے۔
ٹرمپ کی کلائمیٹ عالمی معاہدے سے دستبرداری سے امریکہ شدید تنقید میں رہا اور دنیا بھر میں ٹرمپ کلائمیٹ چینج مخالف پالیسی کی مذمت کی گئی۔ ٹرمپ کی حکومت جانے کے بعد امریکہ کے نئے منتخب صدر جو بائیڈن نے دوبارہ اپریل 2021 میں پیرس معاہدے میں شمولیت کی جس میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے عہد کی تصدیق کی گئی۔
الیکشن 2024 میں رپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کا کلائمیٹ ایجنڈا
2024 کو دنیا میں تاریخ کا سب سے بڑا انتخابی سال قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سال تقریباً 60 سے زائد ممالک میں قومی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ یہ انتخابات تقریباً آدھی دنیا کی آبادی کو متاثر کریں گے، بڑے ممالک جیسے انڈیا، پاکستان، امریکہ، ایران اور دوسرے ممالک کے لئے یہ سال الیکشن کا سال ہے۔ ماحولیاتی ماہرین نے سال کے شروع میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اس سال کلائمیٹ چینج اور ماحول کے تحفظ کی خبروں کی جانب میڈیا کا رجحان کم ہو سکتا ہے۔ جس طرح دوسرے ممالک میں کلائمیٹ چینج کا موضوع سیاسی پارٹیوں کے منشوروں کا حصہ ضرور رہا لیکن عوامی بحث کا حصہ نہیں بن سکا، امریکہ میں بھی یہی حال رہا، کلائمیٹ چینج اہم سیاسی بحث کا حصہ نہیں ہے۔
صحافیوں کے لئے قائم کیے گئے امریکہ میں ایک نیٹ ورک کورنگ کلائمیٹ ناؤ میں کملا اور ٹرمپ کی سیاسی مہم میں کلائمیٹ چینج کے تناظر کے حوالے سے ویبینارز اور دوسرے مختلف ذزرائع جیسے دی گارڈین اخبار، این بی سی نیوز اور 2024 کے انتخابی منشور کے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں جو نکات، تقریریں اور سیاسی تجزے ہوئے ان میں ایک بات واضح ہے کہ ریپبلکن کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کلائمیٹ چینج پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔
کملہ ہیرس کے 2024 کے انتخابی منشور میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم نکات میں امریکہ کی عالمی قیادت، قابل تجدید توانائی، اور ماحولیاتی انصاف کو فروغ دینا شامل تھا۔ ہیرس نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے، قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کو بڑھانے، اور پیرس معاہدے کے تحت عالمی وعدوں کی پاسداری پر زور دیا تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے منشور میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے متاثر ہونے والی کمیونٹیز کے لیے خصوصی اقدامات اور ماحولیاتی انصاف کو یقینی بنانے کا عزم بھی کیا گیا تھا۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کے 2024 کے موسمیاتی تبدیلی کے منشور میں بنیادی توجہ روایتی توانائی کو فروغ دینے اور ماحولیاتی ضوابط میں نرمی پر رہی، نا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے پر۔ ٹرمپ توانائی کے فروغ کے لئے تیل اور گیس یعنی فوسل فیول میں اضافے کی بات کرتے ہیں، خاص طور پر ڈرلنگ اور پائپ لائن منصوبوں کو تیز کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ٹرمپ چند ماحولیاتی قوانین کو امریکی توانائی کے شعبے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب الیکٹرک گاڑیوں کی سبسڈی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ قابل تجدید توانائی کی مخالفت اور جوہری توانائی کے استعمال کو جاری رکھنے اور نئے جوہری ریکٹرز کی ترقی کی حمایت کرتے ہیں۔
سیاسی تجزیوں اور خبروں سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ ٹرمپ کا منشور مجموعی طور پر توانائی کی حفاظت اور روایتی ذرائع کو ترجیح دیتا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کو نظرانداز کرتے ہوئے توانائی کی خود انحصاری پر زور دیتا ہے۔ لیکن چند سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ کلائمیٹ چینج جیسے بڑے خطرے جس کا شکار امریکہ خود ہے شاید ٹرمپ عالمی معاہدے سے اس دفعہ دستبردار نہیں ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے صدر کے انتخاب کے بعد امریکہ کی جانب سے کلائمیٹ چینج کی حقیقت اور اس حوالے سے پالیسی مؤثر انداز میں سامنے آئے گی۔