Get Alerts

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ!

موسمیاتی تبدیلی ایک بین الاقوامی ماحولیاتی مسلئہ ہے، جس مین زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ، موسمی تبدیلیاں اور سمندری سطح میں اضافہ شامل ہے، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی اس وقت ملک سمیت کیچ کے کسانوں کے لئے ایک اہم مسلئہ ہے

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ!

موسمیاتی تبدیلی ایک بین الاقوامی ماحولیاتی مسلئہ ہے، جس مین زمین کے  درجہ حرارت میں اضافہ،  موسمی تبدیلیاں اور سمندری سطح میں  اضافہ شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی اس وقت ملک سمیت کیچ کے کسانوں کے لئے ایک اہم مسلئہ ہے چونکہ کجھور کے زیادہ تر کاشت کاروں کا تعلق کیچ سے ہے اور جب وقت سے پہلے مون سون کی بارشوں ہوتی ہیں تو کجھور کے فصل اسکی لپیٹ میں آتا ہے اور 2022 کی مون سون بارشوں کی وجہ سے کیچ میں کجھور کے کسانوں کو جو نقصان ہوا تھا اب تک اسکی ازالہ ممکن نہیں ہوسکی۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی بنیادی اثرات 

گرین گیس کی اخراج، موسمی تبدیلیاں ، سمندر کی لیول میں بتدریج اضافہ،جنگلات کی بے دریغ کٹائی ، درجہ حرارت میں اضافہ. سے کیچ میں کجھور کی کاشت کاروں کا نقصان کا سامنا

35سالہ کسان اسلم بلوچ جو ضلع کیچ :۔

 سامی کا رہائشی ہے، اس نے رسانکدر بلوچستان سے گفتگو کر کے بتایا کہ حالیہ مون سون بارشوں نے ہمارا سب کچھ مٹا کر رکھ دیا اور میری زرعی باغات جو کہ کیچ کور کے قریب ہیں اور ہرسال 15 لاکھ کے قریب مجھے ان سے آمدنی ہوتی تھی، اب سب کچھ پانی میں بہہ جانے سے بہ مشکل گھر چلایا جاسکتا ہے،اُن کے مطابق حالیہ مون سون کی بارشیں کیچ کے زمین داروں کے لئے زحمت بن گئی ہے۔

ہیرونک سے تعلق رکھنے والا ایک مقامی زمین دار 25 سالہ علی جان نے کہا کہ ہوشاب کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی سے منسلک ہے اور ہوشاب ایک زرعی علاقہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہیرونک میں زراعت مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے اور المیہ یہ ہے کہ زرعی علاقہ ہونے کے باوجود  ہیرونک اور قریبی علاقوں میں محکمہ زراعت کی جانب سے کسانوں کو کوئی بھی سہولت مہیا نہیں کی جارہی ہے۔ انہوں نے صوبائی حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بُلیدہ میں زراعت تباہ ہونے سے زمین داروں کے نقصان کا ازالہ نہ کرنےسے مقامی زمین دار مالی طور پر غیر مستحکم ہوگئے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کیچ کے زمین دار متاثر 

کیچ کھجور کے پیدوار کے حوالے سے بلوچستان کا سب سے اہم ضلع ہے جہاں مختلف انواع و اقسام کی کجھور کاشت کی جاتی ہے اور سالانہ لاکھوں ٹن کجھور پیدا ہوتی ہے۔ کلاییمٹ چینج کی وجہ سے چونکہ بارشوں کی پیٹرن تبدیل ہوچکی ہے اور کیچ بھی اسکی لپیٹ میں اچکی ہے، کیچ میں چونکہ کجھوروں کو پیکنگ کے حوالے سے خاص اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اسی وجہ سے بارشوں کی وجہ سے کسانوں کے تیار فصل بارشوں میں بہہ جاتی ہیں۔

کیچ میں رجسٹرڈ کسانوں کی تعداد

محکمہ زراعت کیچ کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق ضلع کیچ میں 15ہزار 885 کسان رجسٹرڈ ہیں، جو کہ تربت، بُلیدہ، مَنْد، ہوشاب اور ضلع کے دوسرے علاقوں میں کاشت کاری کرتے ہیں۔ مقامی کسانوں کے مطابق ضلع کیچ میں زیادہ تر کسان ہر سال کجھور کی فصل پر انحصار کرتے ہیں، جو کہ نہ صرف ضلع بھر میں اچھی پیداوار کے لئے مشہور ہے بلکہ کیچ میں اعلی کوالٹی کے کجھور پائے جاتے ہیں۔ زراعت کی جانب سے مذید بتایا گیا ہے کہ کیچ میں کجھور کی پیداوار ایک لاکھ پچاس ہزار ٹن کے لگ بھگ ہے اور اس سال مون سون کی بارشوں کی وجہ سے کسانوں کو بھاری نقصان ہوا ہے۔ جبکہ کیچ میں کجھور کی فی ایکٹر

پیداوار 6ہزار 590 کلوگرام ہے جو حالیہ مون سون بارشوں کی نزر ہوگی ہے۔

محکمہ زراعت کے ایک آفیسر نادل شاہ نے رسانکدر بلوچستان کو بتایا کہ ضلع کیچ میں کجھور کے باغات 24ہزار527 ایکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں اور حالیہ مون سون کی طوفانی بارشوں کی وجہ سےایک ہزار 985 ایکٹر پر پھیلے ہوئے کجھور کی فصلیں تباہ ہوے ہیں، ان کے مطابق نقصان کا تخمیہ 4ہزار 500 ملین بنتا ہے اور اس سال کیچ کے زیادہ تر علاقوں میں کجھور کے تیار فصلیں مون سون بارشوں کی نزر ہوگے اور کسانوں کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔

محکمہ زراعت کیچ کے مطابق ضلع بھر میں کجھور کی ایک سو چھ اقسام پائی جاتی ہیں جو کہ مختلف علاقوں میں کاشت کئے جاتیں ہیں،جبکہ بغض کسانوں نے بتایا کہ کجھور کے کچھ اقسام اب کیچ میں کاشت نہیں کی جاتی ہے کیونکہ انکی ڈیمانڈ کم ہے اس لئے ہم ان اقسام کی کاشت کرتے ہیں جنکی مارکیٹ میں زیادہ ڈیمانڈ موجود ہے۔

 مکران کی کجھور کو عالمی سطح پر متعارف کرنے والا، درفشان ڈیٹ پروسسنگ کپمنی کے مالک مقبول عالم نوری کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق ضلع کیچ میں سب سے زیادہ ” بیگم جنگی” کجھور کاشت کی جاتی ھے 10ہزار 500 ایکٹر پرکاشت کی جانے والی کجھور کی اس قسم کے کل درخت کی تعداد 17لاکھ 55ہزار 500 ہیں، اور بیگم جنگی کی سالانہ پیداوار 67ہزار 016 ٹن ہے جبکہ ہر درخت سے اوسط40 کلو گرام کجھور پیدا ہوتی ہے۔

دوسرے نمبر پر "حسینی” اقسام کے کجھور ایک ہزار 345 ایکٹر پر پھیلا ہے، جنکی سالانہ پیداوار 9ہزار 703 ٹن اور درختوں کی 2لاکھ83 ہزار 840 ہے، جبکہ ہلینی 8ہزار 528 اور گوک ناہ 7ہزار 555 ٹن کے ساتھ بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں اور ان دونوں اقسام کے کجھور کی فی درخت سے چالیس کلو گرام کجھور پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کیچ کے کجھور کے مشہور اقسام میں دَشْتیاری، کونزن آباد، مزاتی، شکری کنگوہ اور جدگالی شامل ہیں۔مکران کی کجھور کو عالمی سطح پر متعارف کرنے والا، درفشان ڈیٹ پروسسنگ کپمنی کے مالک مقبول عالم نوری کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق ضلع کیچ میں سب سے زیادہ ” بیگم جنگی” کجھور کاشت کی جاتی ہے۔

مقبول عالم نوری نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ مکران کے دو اضلاع کیچ اور پَنجْگُور میں کجھور کی کاشت کاری زیادہ کی جاتی ہے۔ کولڈ اسٹوریج نہ ہونے کی وجہ سے دونوں اضلاع کے کسان اونے پونے داموں پر کجھور فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالمالک کے وزارت اعلی کے دور میں کیچ میں ایک ڈیٹ پروسسنگ کولڈ اسٹوریج تعمیر کیا گیا، جہاں ایک ہزار ٹن کجھور اسٹور کرنے کی گنجائش ہے جبکہ مکران بھر میں سالانہ ڈھائی سے تین لاکھ ٹن کجھور پیدا ہوتی ہے۔ مقبول عالم نوری کے مطابق اس اسٹوریج سے پہلے سکھر اور خیرپور کے تاجر مقامی کسانوں سے فی من کجھور 700 سو سے نو سو کے درمیان خریدتے تھے ، اب مقامی کسان ڈھائی ہزار سے تین ہزار تک فی من کجھور فروخت کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مکران میں ڈیٹ پروسسنگ یونٹ بناکر نہ صرف مکران کی کجھور کو عالمی منڈیوں تک پہنچایا جاسکتا ہے بلکہ مقامی زمین داروں کو ہر سال لاکھوں روپے اضافی منافع مل سکتا ہے۔ ان کے مطابق مکران کی کجھور کوالٹی کے حوالے سے ہمسایہ ملک ایران کے کجھور سے زیادہ پائیدار ہے۔