ہمارا سچ بھی "سیلیکٹڈ" ہے

ہمارا سچ بھی
تحریر: (علوینہ ساجد) سیلیکٹڈ وزیراعظم یا سیلیکٹڈ حکومت کے بارے میں تو آپ نے بہت سُنا ہوگا لیکن میں بات کرنے جا رہی ہوں " سیلیکٹڈ معیار" کی۔ سیلیکٹڈ اس لیے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ہمارا معیار بھی سیلیکٹڈ ہوتا ہے۔ یہاں سزا اور جزا بھی سیلیکٹڈ معیار پر منحصر ہے۔ کچھ گناہوں کی سزائیں سیلیکٹڈ لوگوں کے لیے ہی ہیں اور کچھ سیلیکٹڈ لوگوں کے لیے وہ گناہ گناہ تصور ہی نہیں کیے جاتے۔

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جس طرح 'کہنا' کر دکھانے کی نسبت آسان ہے اسی طرح 'بولنا' اور 'ٹویٹ کرنا' لکھنے یا پڑھنے کی نسبت بے حد آسان ہے اس لیے ہم بولتے ذیادہ ہیں اور اپنی معلومات میں اضافہ کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ہمیں معلومات بھی سیلیکٹڈ پسند ہیں۔

ہم پاکستانی جب کسی کو سپورٹ کرتے ہیں تو اس کی خامیاں دیکھنے سے عاری ہو جاتے ہیں اور اگر کسی کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کی خوبیوں سے عاری ہو جاتے ہیں۔ ہمیں صرف وہی صحیح لگتا ہے جسے ہم صحیح سمجھتے ہیں یعنی ہمارا سچ بھی " سیلیکٹڈ" ہے۔ تصویر کا دوسرا رُخ پرکھنا تو دور ہم اس کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تحقیق میں ہم اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے کیونکہ آخرکار فروغ تو ہم نے اپنے نظریے کو ہی دینا ہے تو اس کے لیے تحقیق میں کیوں وقت ضائع کرنا۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیلیکٹڈ معلومات بھی ہمیں واٹس ایپ اور ٹویٹر جیسی ایپس کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔۔ اب تو ہم لوگ "ٹک ٹوک"جیسی ایپس جو انٹرٹینمنٹ کے لیے بنائی گئی ہیں ان کے ذریعے بھی سیاست کرنے لگے ہیں۔

کچھ لوگ الفاظ کے نیچے میوزک اور جھٹکوں والے افیکٹس لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بڑا تیر مار لیا اور جن کے خلاف لکھا ہے اصل میں یہ جھٹکے ان کو لگے ہوں گے۔ حیرت ہوتی ہے ایسے لوگوں کی حیرت انگیز سوچ پر۔ یہ لوگ معلومات کے ذخیرے اپنے ذہنوں میں لیے پھرتے ہیں لیکن ان ذخیروں کے بہاو کو کم کرنے کے لیے ان دانشوروں کو ٹک ٹوک کا سہارا ہی ملتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ معلومات حاصل کر کے اپنا موقف لکھنا مشکل ہے لیکن ٹک ٹوک بنا کر لوگوں کا مذاق بنانا آسان ہے!

سیلیکٹڈ معیار کی طرف آتے ہیں اور سب سے پہلے بات کرتے ہیں "پرچی سے تقریر پڑھنے والے وزیراعظم" پر۔ پچھلی حکومتوں میں جب وزرائے اعظم پرچی سے دیکھ کر تقریر کرتے تھے تو کچھ لوگوں کا یہ موقف تھا کہ انہیں بولنا نہیں آتا۔ جب حال ہی میں عمران خان منتخب ہوئے اور انہوں نے اُردو میں حلف لینے کا فیصلہ کیا تو بہت سے لوگوں کوتب یہ بھی معلوم ہوا کہ دیکھ کر پڑھنا بھی آسان کام نہیں کیونکہ عمران خان کو دیکھ کر پڑھنے میں بھی بے شمار مشکلات پیش آئیں مگر انہی لوگوں نے جو پرچی سے دیکھ کر پڑھنے والوں پر تنقید کرتے تھے اور اس بات پر خوش ہوتے تھے کہ عمران خان پرچی سے دیکھ کر نہیں پڑھتے انہیں ان کی یہ "ادا" بھی کیوٹ لگی۔ عمران خان کا یو ٹرن اپنی جگہ کیونکہ وہ کم از کم اپنے یو ٹرن کو تسلیم تو کرتے ہیں مگر وہ لوگ جو عمران خان کی ہر بات کو سپورٹ کرتے ہیں یہ تو اپنی بات سے ہی مُکر جاتے ہیں۔

پھر بات کرتے ہیں مہنگائی کی۔ اپوزیشن میں کنٹینر پر کھڑے ہو کر زور زور سے یہ کہنے والے عمران خان کہ کرپٹ حکمرانوں نے مہنگائی سے غریب عوام کی کمر توڑ دی آج خود حکمران بن کر انہی کے نقش قدم پر رواں دواں ہیں۔ ایک وقت میں انہوں نے یہ بات کی تھی کہ مہنگائی کر کے کرپٹ حکمران عام عوام کو لوٹتی ہے لیکن آج عمران خان کے ماننے والے اس بات سے انکاری بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو مجبوراً مہنگائی کرنا پڑی کیونکہ پچھلی حکومتوں نے خزانہ خالی کر دیا۔ اور تو اور آج یہ ہی لوگ مہنگائی کے فوائد پر دوسروں کو درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ ہمارے وزیراعظم نے تب تب بھی کہا جب جب گزشتہ حکومت کے دور میں ڈالر کی قیمت بڑھی۔ وہ کہتے تھے کہ جب روپے کی قدر کم ہونے لگے تو سمجھ جائیں کہ حکمران کرپٹ ہیں تاہم میرے خیال میں تب انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ کبھی وہ بھی حکمران جماعت کے سربراہ ہو سکتے ہیں۔ اب وہ لوگ جو تب ڈالر کی قیمت بڑھنے پر تنقید کرتے تھے آج یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کی غریب عوام کا ڈالر سے کوئی تعلق نہیں اور ان بڑھتی قیمتوں پر بھی وہ اکتفا کر کے بیٹھے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ڈالر کی قیمتیں بڑھی ہیں تاہم حکمران اب کرپٹ نہیں۔ اس سے زیادہ " سیلیکٹڈ معیار" کیا آپ نے کہیں دیکھا ہے ؟

ایسے ہی کچھ بیان ہمارے وزیراعظم نے "آئی ایم ایف" اور "قرضے لینے" سے متعلق بھی دیے اور یہ کہا کہ "ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ عمران خان وزیراعظم ہو اور وہ ملکوں ملکوں بھیک مانگتا پھرے"، جی نہیں یہ الفاظ میرے نہیں وزیراعظم صاحب کے ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ آئی ایم ایف کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن آخر میں آئی ایم ایف سے ہی قرضہ لینا پڑا۔ اس بات کو بھی خان صاحب کے سپورٹرز نے " سیلیکٹڈ" طریقے سے لیا اور دوسروں کو یہ سمجھاتے رہے کہ کیا کریں، خزانہ خالی تھا اس لیے حکومت کو قرضہ لینا پڑا۔

پھر آئی ایمنسٹی سکیم کی باری اور گزشتہ حکومت کی وہ سکیم جس پر سب سے زیادہ مخالفت خود عمران خان صاحب نے کی تھی وہی سکیم وہ خود ہی لے آئے۔ اپوزیشن میں رہ کر عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر وہ حکومت میں آئے تو نا صرف اس سکیم کی مخالفت کریں گے بلکہ ان چور ڈاکووں کے خلاف کارروائی بھی کریں گے جنہوں نے اس سکیم سے فائدہ اُٹھایا۔ مگر اب وہ از خود عوام کو ایمنسٹی سکیم میں حصہ لینے کی تاکید کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے سپورٹرز اس سکیم کے فوائد بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ کیسے کالے دھن کو سفیر کرنا عمران خان کا ایک بہترین فیصلہ ثابت ہو گا۔

دیکھا جائے تو جو کچھ گزشتہ حکومتوں نے کیا اس میں سے بہت سی چیزیں اب تحریک انصاف کی حکومت بھی کر رہی ہے لیکن اس جماعت کے چاہنے والوں کا معیار اب بھی " سیلیکٹڈ" ہے۔ جب یہ سب پچھلے حکمرانوں نے کیا تو وہ کرپٹ کہلائے مگر جب وہ ہی سب تحریک انصاف کی حکومت کر رہی ہے تو وہ صریحاً جائز اور ایمانداری پر مبنی ہے۔ اور تو اور گزشتہ کرپٹ حکومتوں کے تمام کرپٹ باشندے بھی جب تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو وہ بھی صاف شفاف اور تمام کرپشن سے پاک ہو جاتے ہیں۔

کہتے ہیں "یاد ماضی عذاب ہے یا رب"۔ یہ بات صرف خان صاحب پر ہی نہیں بلکہ ان کے ڈائی ہارڈ سپورٹرز پر بھی عائد ہوتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہوتی جا رہی ہےکہ گزشتہ حکومتیں کرپٹ تھیں یا موجودہ حکومت بہت زیادہ ایماندار ہے یا پھر یہ سب ہماری عوام کے " سیلیکٹڈ معیار" کا نتیجہ ہے۔ بہرحال غریب عوام کا نا تو گزشتہ حکومتوں کے دور میں کوئی پُرسان حال تھا اور نا ہی ان کا موجودہ حکومت کے دور میں کوئی پُرسان حال ہے۔