گھر پھونک تماشہ دیکھ

گھر پھونک تماشہ دیکھ
22 مئی کو عین عید سے دو دن قبل قبل پی آئی اے کا طیارہ، ایئربس A320، جس میں 99 مسافر سوار تھے، کراچی ائرپورٹ پر لینڈ نہ کر سکا اور قرب و جوار کی عمارتوں سے ٹکرا کر کریش ہو گیا۔ دو افراد کے سوا سب مسافر مع عملہ لقمہ اجل بن گئے۔ گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ کرونا کی وجہ سے پہلے ہی لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ دلخراش واقعہ عيد کی خوشیوں کو گہنا گیا۔

حسب روایت، انکوائری کا حکم دے دیا گیا۔ اور انکوائری سے قبل ہی انکوائری رپورٹ ریلیز کرنے کی تاریخ دے دی گئی۔ 26 جون کو وزیر ہوا بازی، ملک غلام سرور نے اپنا وعده ايفا کرنے کا اعلان کیا۔ انکوائری رپورٹ تو سامنے نہ آئی البتہ بدقسمت طیارے کے پائلٹ اور کنٹرول ٹاور کو ٹریجڈی کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی وزیر موصوف نے بلا جواز، بلا مطالبہ اور بغیر کسی عمل انگیز کے، ایک ایسا بیان داغ ڈالا، جو کسی طور خود کش حملے سے كم نہ تھا۔ کہا گیا کہ 262 پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ پھر کہا گیا کہ ڈگریاں مشكوک ہیں۔ یہ زبان و بیان کی لغزش تھی یا اس بیان سے کچھ خاص مقاصد حاصل کرنے مقصود تھے، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔

جب دنیا کو وزیرِ موصوف کے بیان کی سمجھ آئی اور انھوں نے اِس کے مضمرات کا جائزہ لیا تو سب سے پہلے ویت نام نے اپنے ہاں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس کو طيارے ہوا میں اُڑانے سے فی الفور روک دیا۔ اور پھر اس کے بعد یو اے ای نے بھی انگڑائی لی۔ Emirates نے اپنے ہاں کام کرنے والے پائلٹس و انجینئرز کے کوائف کی تصدیق کے لئے پاکستان سے رابط کر لیا۔ فوراً بعد ہی یہ خبر آئی کہ یورپین یونین ائیر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کی فلائٹس پر یورپی یونین کے ممالک میں چھ ماہ کے لئے پابندی عائد کر دی ہے۔

اس عرصہ میں پی آئی اے کو پہنچنے والے نقصان کا ابتدائی تخمینہ سات ارب روپے لگایا گیا ہے۔ ایک دوسری خبر کے مطابق، پی آئی اے کو 10 کروڑ روپے روزانہ کا خسارہ اس پر مستزاد ہے۔ قومی معیشت کی زبوں حالی کے دور میں حکومت کے ناعاقبت اندیش بیانات سے جو نقصان قومی اداروں کو پہنچ رہا ہے، اُس کو سوچ کر بھی وحشت طاری ہونے لگتی ہے۔

یہ کہنا کہ پی آئی آئے کے پائلٹس کی ڈگریوں کے جعلی ہونے کا بیان، ملک غلام سرور، وزیر شہری ہوا بازی نے ازخود سے دیا تھا، یکسر غلط ہوگا۔ جناب وزیر اعظم نے قومی اسمبلی کے فلور پر 30 جون کو جو بیان دیا، وه اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وزیر موصوف، درحقیقت وزیر اعظم کے خیالات ہی کی ترجمانی کر رہے تھے۔

وزیر اعظم کا یہ فرمانا کہ اگر کوئی مزید حادثہ ہو جاتا تو مرنے والوں کا خون ان کے ہاتھوں پر ہوتا بظاہر جلد بازی میں دیا گیا ہے اور ان کی حکومت پر ہونے والی تنقيد کا جواب آں غزل ہے۔ جناب وزیر اعظم، اگر آپ کے الفاظ کو کھول کر بیان کیا جائے تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ پہلے جو پی آئی اے کا جہاز کریش ہوا، اس میں مرنے والوں کے خون کے آپ خود ذمہ دار ہیں۔ غور کیا جائے تو وزیر اعظم نے کوئی غلط بات نہیں کی۔ جب وہ فرمایا کرتے تھے کہ ریلوے کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو ریلوے وزير كو استعفا دے دینا چاہیے۔ گو شیح رشید، وزیر ریلوے نے وزیر اعظم کے مشورے کو در خوراعتنا نہیں سمجھا۔ شاید وزیر اعظم کو اپنی ہی کہی ہوئی باتیں رہ رہ کر یاد آ رہی ہیں اور وہ ان کو haunt کر رہی ہوں۔ ایسے میں اگر ان کے اپنے اندر یہ اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وه خود مستعفی ہوں تو کم از کم اپنی بات کی لاج رکھتے ہوئے، ملک غلام سرور سے ہی استعفا طلب كر لیتے۔ اگر وه راضی نہ ہوں تو وزیر اعظم اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے، انھیں ان کے گھر کی راہ دکھا سکتے ہیں۔

جو شخص کسی چیز کے جعلی ہونے اور مشکوک ہونے کے مابین فرق کو ملحوظ نہ رکھ سکے اور جس کی اپنی ڈگری پر سوالیہ نشان ہو، اسے کیوں نہ اہم وزرات کی ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا جائے؟ ڈگری جعلی قرار دینے کا مطلب سمجھ لیجیے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے پیش کردہ شہادتوں اور دستاویزی ثبوتوں کی چھان پھٹک کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ متعلقہ شخص ایک بہروپیہ ہے، جس نے جعلی کاغذ تیار کر کے اپنے آپ کو ایک پائلٹ، ڈاکٹر، انجینئر اور وكيل وغیره ظاہر کیا ہے۔ ره گئی شکوک و شہبات کی بات تو فیض کی زبان میں یہاں باصفا كون ہے؟ ہر شخص دوسرے پر زبانِ طعن دراز کیے بیٹھا ہے۔ دوسروں کی پگڑی اچھالنا اور انھیں رسوا کرنا ہی ہمارا قومی مشغلہ ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں trolling عام ہے۔ لہٰذا تفصيل میں جانے کی ضرورت نہ ہے۔ ویسے موجوده حکومت کا اس ملک کے پائلٹس کے حوالے سے جو رویہ ہے، وہ ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص پر قتل کا الزام لگے تو بغیر ایف آئی آر، بغیر تفتیش، بغير چارج اور بغير شہادت کے اسے فی الفور پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے لئے چھوڑ دیا جائے اور پھر اس ظالمانہ و عاجلانہ فیصلے کو جائز ثابت کرنے کے لئے ایک جوڈيشل انکوائری کا حکم دے دیا جائے۔

ویسے آپس کی بات ہے، اگر حکومت نے قومی وقار اور معیشت پر خودکش حملہ کرنے کی ٹائمنگ مقرر نہ کی ہوتی تو سول ایوی ایشن اتھارٹی کے لئے زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کا کام تھا۔ ہر پائلٹ کوCAA ہی لائسنس جاری کرتی ہے اور پائلٹ کے مکمل کوائف اُسی کے پاس ہوتے ہیں کہ اُس نے کون سے فلائنگ کب، كون سے طياره میں اور کس انسٹرکٹر کے ماتحت تربیت حاصل کی ہے اور اُس نے کم از کم مقرره فلائنگ آورز كو پورا کیا ہے یا نہیں۔ اس سب کے باوجود، اُسے فوری طور پر طياره اُڑانے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ متعین وقت تک اسے معاون ہوا باز کے طور پر کام کرنا پڑتا ہے۔

کوئی پائلٹ طياره اُڑانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اُس کے ساتھی پائلٹس اُس کی ناک میں دم کر دیں گے۔ اس کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ مرحوم پائلٹ، جو ہزاروں گھنٹے، کریش سے قبل، طياره اُڑا چکا تھا، اس کے یا کسی بھی پائلٹ کے خلاف كب كب درخواست موصول ہوئی؟ اور اس پر کیا کیا فیصلہ صادر ہوا؟ اور اگر شکایت موصول ہونے کے باوجود پائلٹس کو جہاز اُڑانے کی اجازت دی گئی تو وہ کون سا فرد، عہدیدار یا اداره ہے، جو قوم کی قسمت سے کھیلتا رہا۔ اس بابت انکوائری کیوں نہیں کی جاتی اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں کیوں نہیں کھڑا کیا جاتا؟

گذشتہ ایک دہائی سے جب سے پی ٹی آئی قومی منظر نامے پر جلوه افروز ہوئی ہے، پاکستانی قوم کی زبان و تہذیب ہی بدل گئی ہے۔ دشنام طرازی تو اب ایک عام سی بات ہے۔ اب تو بچے بچے کو یہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ یہاں ہر شخص کرپٹ ہے، ہر اداره کرپٹ ہے اور قوم کا مستقبل ڈانواں ڈول ہے۔ جب نفرتوں کے بیج تناور درخت بن جائیں تو صبح امید کے طلوع ہونے کی سحر کب ہوگی؟ دشمن تو پہلے ہی ہماری طاق میں بیٹھا ہے۔ خود اپنی صفوں کو روندتے چلے جانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ جب کسی قوم کا وقار و اعتبار آٹھ جائے، اُس کی ہوا اکھڑ جائے تو اس سے کون لین دین کرے گا؟ کون اُس کے سپوتوں کے لئے چشم براه ہوگا؟ محاوره تو لغت میں پہلے ہی موجود تھا: گھر پھونک، تماشا دیکھ۔ لیکن پورے وطن اور قوم کو اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں جھلستے کم کم ہی ديكھا اور سنا ہے۔

تاریخ میں ایک جملہ درج ہے کہ روم جل رہا تھا اور نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا۔ کہیں ہم بھی اسی راہ پر بگٹٹ دوڑے تو نہیں جا رہے؟ قومی سلامتی کے رکھوالے، قومی ساکھ کو داؤ پر لگا دیکھ کر کیا سوچ رہے ہیں؟ ایسا لگتا ہے، غلام سرور کے بیان نے پی آئی اے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ اس سے زیاده ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مضمون نگار شعبہ وکالت سے وابستہ ہیں اور انگریزی اخبارات کے کالم نگار ہیں۔ ان سے رابطہ ای ميل zaeem.bhatti89@gmail.com پر کیا جا سکتا ہے اور ٹوئٹر پر ان سے بات کرنے کے لئے ان کا ہینڈل ہے: @zaeem8825