پاکستان کی تاریخ حادثات سے بھری پڑی ہے، چاہے وہ حادثہ ہوائی جہاز کا ہو یا ریل گاڑی کا۔ ابھی میں ملک میں ریل کے بڑھتے ہوئے حادثات کا ذکر کروں گا۔ پچھلے سال ریل کے چند حادثات میں سے سب سے خطرناک حادثہ کراچی سے پنجاب جانے والی تیزگام کے ساتھ پیش آیا جس میں لگ بھگ 100 کے قریب افراد جان سے گئے تھے اور وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب اس حادثے کی ساری ذمہ داری مسافروں پر ڈال کر بری الذمہ ہو گئے جب کہ وزیراعظم عمران خان نے تحقیقات کا حکم دیا۔
ابھی چند یوم قبل ایک حادثہ پیش آیا جس میں ایک لاہور سے کراچی جانے والی مسافر ٹرین نے پتوکی کے قریب ریلوے ٹریک پر ایک کار کو ٹکر مارتے ہوئے کچل ڈالا جس کے نتیجے میں چار (4) افراد ہلاک ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد علاقہ مکینوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور اس واقعہ کو ریلوے حکام کی صریح غفلت قرار دیتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
اسی سال مارچ کے مہینے میں بھی روہڑی، سکھر کے قریب ٹرین کی ٹکر سے رکشہ میں سوار 5 افراد ہلاک ہو گئے۔ ایک اور حادثے میں رواں برس فروری میں 19 لوگ جان سے گئے جب پاکستان ایکسپریس نے روہڑی کے قریب مسافر بس کو ٹکر مار دی۔
جب جب بھی موجودہ دور حکومت میں کوئی حادثہ بالعموم اور ریل کا حادثہ بالخصوص وقوع پزیر ہوتا ہے تو مجھے موجودہ مدینہ کی ریاست کے دعویدار وزیراعظم عمران خان صاحب کا ایک بیان یاد آ جاتا ہے جب وہ اپوزیشن میں تھے۔ اس وقت ایک چلتی ریل گاڑی نے اپنے سامنے آنے والے رکشے کو سکول کے 7 بچوں سمیت کچل دیا تھا جس پر خان صاحب نے ریلوے وزیر سے فی الفور مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
اس وقت خان صاحب کا یہ فرمانا تھا کہ یہی اصل جمہوریت ہے کہ تحقیقات شروع کی جائیں اور متعلقہ وزیر مستعفی ہو ورنہ وہ شفاف تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے، مگر موجودہ حالات میں وزیر اعظم اور وزیر ریلوے دونوں کا رویہ غیر سنجیدہ اور پہلے سے برعکس نظر آ رہا ہے۔
ابھی میں صرف ریل کے حادثوں کا ذکر کر رہا ہوں ورنہ تو پی آئی اے کے جہاز کے حالیہ المناک حادثے کا ذکر بھی کیا جائے تو اخلاقی طور پر وزیر ہوابازی کا استعفی دینا بھی بنتا ہے۔ غرض جس وزیر کے زیر سایہ کوئی حادثہ وقوع پذیر ہوتا ہے اس کا اخلاقی طور پر استعفا دینا بنتا ہے اور اگر تحقیقات سے ثابت ہو جائے کہ ان حادثات میں متعلقہ وزیر کی کوئی نااہلی شامل نہیں تھی تو نااہل اور مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دے کر متعلقہ وزیر کو دوبارہ اس کے عہدے پر بحال کر دیا جائے۔
اعداد و شمار کے مطابق اگست 2018 سے لے کر دسمبر 2019 تک پاکستان ریلوے کو ریلوے حادثات کی مد میں تقریباً 410 ملین روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
میں امید کرتا ہوں کہ وزیراعظم پاکستان عوام کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے روایتی سیاستدانوں والے بیانات داغنے کی بجائے متعلقہ وزرا مثلاً وزیر ریلوے شیخ رشید اور وزیر ہوابازی سرور خان سے اصولی اور اخلاقی بنا پر استعفے لے کر غیرجانبدار تحقیقات کروائیں اور ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ اگر متعلقہ وزیر یا وزرا بے قصور پائے جائیں تو ان کو دوبارہ بحال کر دیا جائے۔
خان صاحب، امید ہے کہ آپ روایتی حکمرانوں کی طرح دوغلے معیار اور بیانات کامظاہرہ نہیں کریں گے اور اپنے دعوے کے مطابق مدینہ کی ریاست کا انصاف قائم کریں گے کیونکہ متاثرہ زخمی افراد اور متاثرہ مرنے والے افراد کے لواحقین آپ سے انصاف کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب اگر آپ بھی اپنے بیانات پر قائم نہ رہے اور آپ کے معیار بھی دوغلے رہے تو وہی عوام جس کے ووٹوں سے آپ کو اقتدار ملا ہے اس کو آپ سے بدظن ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔