اشرف غنی کا دورہ امریکہ ناکام، ’بقای افغانستان در خطر است‘

اشرف غنی کا دورہ امریکہ ناکام، ’بقای افغانستان در خطر است‘

افغان صدر اشرف غنی امریکہ کے ناکام دورے کے بعد کابل واپس ہوئے تو ’ صدارتی محل میں اعلی افغان قیادت کے اجلاس میں افغانستان میں امن معاہدےکے لیے فیصلہ ساز کونسل کے چیئرمین عبد اللہ عبد اللہ نے کہا ہے کہ ’ بقای افغانستان در خطر است‘ یعنی ’ افغانستان کی بقا خطرے میں ہے۔‘


اشرف غنی دورے کو اس لئے ناکام کہا ہے کہ ایک طرف طالبان مذاکرات میں سنجیدگی نہیں دکھا رہے اور میدان جنگ میں مسلسل پیش قدمی کررہے ہیں، تودوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن نے اشرف غنی کو واشنگٹن دورے کے موقع پر صاف صاف کہا ہے کہ ’افغاستان سے فوجی انخلاء جلد مکمل ہوگا اورافغان اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں‘ ۔ تاہم جو بائیڈن اور امریکی انتظامیہ نے افغانستان کی نصف بیلین ڈالر مدد کا اعلان کیا ہے اور سیکیوریٹی فورسز نےطالبان کو کابل پر حملے اور محاصرے کی صورت میں فضائی حملوں کا نشانہ بنانے کی دھمکی ضرور دی ہے۔



عبدللہ عبداللہ کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یورپی افواج کی اکثریت خاموشی سے انخلاء مکمل کرچکے ہیں،  جرمن فوج نے مزار شریف اور اٹلی کی فوج نے ہرات سے اپنے بوریا بستر گول کرکے بیس سال بعد اپنے ممالک واپس ہوئے ہیں، جبکہ سی این این نے امریکی سیکیوریٹی فورسز ذرائع سے خبر دی ہےکہ امریکی فوج 4 جولائی تک واپس ہوجائے گی، صرف بگرام ائیربیس میں 650 تک فوجی امریکی سفارتی مشن کی حفاظت کے لئے باقی بچیں گے۔


عرب میڈیا کے مطابق فارن پالیسی میگزین نے امریکی دستاویزات اور اشرف غنی کے حالیہ دورہ امریکہ پر ایک مضمون شائع کیا ہے، جس سے افغانستان سے متعلق امریکی دوغلی پالیسی کے ساتھ ساتھ اشرف غنی کی نااہلی اور افغان خانہ جنگی سے متعلق خدشات عیاں ہیں۔ افغانستان میں زمینی حقائق اور تیز رفتار بدلتی صورتحال سے صاف ظاہرہے کہ سب کچھ پلان ہے۔ فروری 2020 میں امریکہ (ٹرمپ)نے طالبان کے ساتھ ایک ڈیل کی ہے، جس کو ابھی تک سامنے نہیں لایا گیا ہے، اور جو بائڈن انتظامیہ نہایت تیزی سے اس منصوبہ پر عملدرآمد کررہا ہے۔


میڈیا رپورٹس کے مطابق  افغانستان کے آدھے اضلاع یعنی ڈیڑھ سو سے زیادہ اضلاع یا تو  طالبان کے قبضے میں ہیں یا محاصرے میں ہیں، جو کسی بھی وقت طالبان کے ہاتھوں میں جاسکتے ہیں، اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔


افغانستان میں تعینات بین الاقومی فورسز کے امریکی جنرل، آسٹن ملر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ “امریکی انخلاء سے افغانستان خانہ جنگی کی نذرہو جائے گا، جس کا تصور کیا جاسکتا ہے، دنیا کو فکرمند ہونا چاہئے‘


پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکا کے ساتھ امن کے شراکت دار تو ہوسکتے ہیں لیکن جنگ میں نہیں، عمران خان نے مزید کہا کہ “ افغانستان کے حوالے سے ہمارے لیے اب واقعی  بڑا مشکل وقت آرہا ہے، پاکستان کا مفاد یہ ہے کہ افغانستان میں امن ہو، ہم افغانستان میں کوئی تذویراتی گہرائی نہیں چاہتے، جو افغانستان کے لوگ چاہتے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں‘۔ اس سے پاکستان کی صورتحال واضح ہوجاتی ہے مگرپاکستان کا ایک بڑا طبقہ طالبان کو سپورٹ کرنے کےلئے سامنے آیا ہے جو سمجھتے ہیں کہ طالبان نجات دہندہ ہیں، اور پچھلے پچاس سالوں میں دو سوپر پاؤرز کوشکست سے دوچار کرچکے ہیں۔ مگر اس طبقے کو یہ نظر نہیں آرہا کہ افغاستان پچھلے پچاس سال میں تباہ و برباد بھی ہوا ہے۔


افغان اُمور پر نظر رکھنے والے دوست، سینئیر صحافی جناب حیدر جاوید سید کو لگ رہا ہے کہ  ’ پاکستان میں ’’عشقِ طالبانیت‘‘ پھر سے انگڑائیاں لے رہا ہے، دروس ہورہے ہیں، دعوت جہاد اور جہاد کی فضیلتیں بیان ہورہی ہیں، طالبانیت کے عشق میں سرشار یہ بھول گئے کہ ستر ہزار پاکستانی کس جنگ کا رزق ہوئے تھے‘۔ اور ٹھیک فرمایا ہے۔ اگر حق اور سچ بات کریں تو افغانستان کو روس اور امریکہ نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا افغان جہادی لیڈرز آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو قتل کرتے آ رہے ہیں، ہم دیکھ چکے ہیں کہ کیسے طالبان نے افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو گھسیٹتے ہوئے کابل کے چوک میں لٹکایا۔



افغان امور کے ماہرین گزشتہ چند مہینوں سے اسی صورتحال کی طرف اشارہ کررہے تھے اور میں نے اپنے پچھلے آرٹیکل بہ عنوان ’پاک افغان بارڈر پر طالبان کاقبضہ، اسلام آباد و کابل میں خطرے کی گھنٹی بج گئی‘ میں اس پر گفتگو کی ہے، کہ امریکی تھینکس ٹینکس اور امریکی سیکیوریٹی اسٹیبلشمنٹ نے افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد، خانہ جنگی کی طرف بڑھنے کے قوی خدشات ظاہر کئے تھے ، مگر حیران کن اور پریشان کن بات یہ ہے کہ جو کام مہینوں میں ہونا تھا وہ ہفتوں بلکہ دنوں میں ہورہا ہے۔ طالبان جنوب پر نہایت کم توجہ دے رہے ہیں، شمال میں توقع کے برعکس کامیابی سے پیش قدمی کررہے ہیں، اور دوستم کے آبائی ضلع کوبغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کیا ہے، مزار شریف کے دروازے پر دستک دی ہے، ہرات میں آج افغان حکومت اور طالبان کے درمیان فیصلہ کن جنگ لڑی جارہی ہے جبکہ ھلمند میں خونریز جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔


افغانستان کو سمجھنے کے لئے آپ کو افغانستان کی اندرونی قبائلی مخاصمت سمجھنا ضروری ہے جو تین سو سال سے ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور افغانستان کا جغرافیہ، علاقائی اور نسلی تقسیم سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ افغانستان کے جنوب میں پشتون آباد ہیں، اور قندھار اور غزنی سے لیکر خوست، پکتیا، پکتیکا، جلال آباد اور طورخم تک پشتون علاقے پہلے ہی طالبان کے زیر اثر تھے، اور اکثر نے طالبان کو خوش آمدید بھی کہا اور کئی جگہ توطالبان پہلے ہی قابض تھے۔


ضلع کرم کے ساتھ پاک افغان بارڈر پر جاجی ھریوب (اریوب) اور ڈنڈہ پٹھان و شھرانو  کے علاقے بغیر مزاحمت کے طالبان کے ہاتھوں میں چلے گئے، مگر بڑے اضلاع جو مرکزی شاہراہ پر واقع ہیں مثلاً سید کرم ضلع وہ افغان فورسز نے واپس لی ہے، مرکزی شاہراہ سے آگے طالبان قابض ہیں۔ جبکہ طالبان کی سیاسی حکمت عملی میں ایسی  تبدیلی آئی ہے کہ بارڈر کے پار پاکستان میں کوئی ہل چل پیدا نہیں ہوئی، اور نہ طالبان نے کوئی بڑی سیکیوریٹی تبدیلیاں کیں، جوحکومت کے سپاہی سرنڈر ہوئے انکو اسی جگہ پر بحال کرکے تبدیلی ظاہر ہی نہیں ہونے دی۔


سابق افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے بارکزئی قبیلے کے ایک مستند شخصیت سے افغان صورتحال پر بحث کرتے ہوئے میں نے چند سوال کئے، جو طالبان کو  سپورٹ کررہے تھے! انکا جواب تھا کہ ’ طالبان کو اسلئے سپورٹ کررہا ہوں، تاکہ وہ کابل پر قبضہ کرے، اور پھر چونکہ ’افغان‘  طالبان کی حکومت نہیں چاہتے، لہذا ’لویہ جرگہ‘ بلایا جائے گا، جس میں افغانستان کے مستقبل کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا‘۔ انہوں نے 2010 میں نیویارک ( امریکہ) سے شائع اپنے تھنک ٹینک کا روڈمیپ (وائٹ پیپر) بھی مجھ سے شئیر کیا ہے جو وہ امریکی (اُبامہ انتظامیہ) کے سامنے رکھ چکے ہیں، اور انکا خیال ہے کہ کابل کے سقوط کے بعد ’لویہ جرگہ‘ کے سامنے بھی وہی وائٹ پیپر رکھا جائے گا۔ موصوف کے مطابق افغانستان نے ظاہر شاہ کے دور میں سب سے زیادہ ترقی کی ہے لہذا وہی بادشاہت واپس لائی جائے۔ یاد رہے سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی ظاہر شاہ کو کابل واپس لاکر سیاسی فائدہ حاصل کرچکے ہیں۔


اس ایک شخص کی  گفتگو سے آپ کو حالات کا اندازہ ہونا چاہئے کہ افغانستان کس طرف جا رہا ہے، امریکہ میں بیٹھا ایک افغان بھی کابل پر طالبان کا قبضہ چاہتاہے تاکہ ان کے لئے راہ ہموار ہوسکے تو زلمے خلیل زاد جو امریکی منصوبہ بندی ’قطر پلان‘ کے خالق تصور کئے جاتے ہیں، اور افغان جہادی رہنماؤں کے بھی قریب سمجھے جاتے ہیں ان کے عزائم کیا ہونگے؟


افغانستان میں غلجی قبیلہ کا افغان جہاد اور سیاست میں کلیدی کردار ہے، اشرف غنی احمدزئی کا تعلق بھی ڈاکٹر نجیب اللہ کی طرح غلجی قبیلے سے ہے۔ جبکہ حامدکرزئی کا تعلق ابدالی قبیلہ کے پوپلزئی شاخ سے ہے


اشرف غنی اور حامد کرزئی امریکہ اور پاکستان کے خلاف میڈیا میں سخت گیر رویہ اختیار کرتے ہیں، اس کے پیچھے افغان قوم کا تاریخی سبق ہے کہ ’افغان قوم اغیار اور کٹ پتلی‘ کھبی تسلیم نہیں کرتے، پہلی اینگلو۔افغان جنگ کے وقت شاہ شجاع اور انگریز افغان قوم کا غیض و غضب دیکھ چکے ہیں۔



دوسری طرف تاجک، اُزبک، ترکمن اور ہزارہ لیڈرز کابل میں بیٹھے ہیں جبکہ ان کے علاقوں میں طالبان گھوم رہے ہیں، استاد محقق کا آبائی علاقہ شولگر جو بلخ میں واقع ہے اور طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے، جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اشرف غنی کا آبائی علاقہ ’لوگر‘ بھی طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔


قطر میں قائم طالبان سیاسی دفتر کے سربراہ بین الاقومی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تربیت یافتہ ہیں، انہوں نے کل ویڈیو پیغام میں افغان مصالحتی کمیشن پرسنگین الزامات لگائے کہ وہ مذاکرات میں سنجیدہ نہیں اور میدان جنگ میں کود گئے ہیں، جبکہ طالبان اہلکاروں نے صوبہ تخار کے مرکزی مسجد کے ایک بڑے اجتماع میں فتویٰ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ طالبان لیڈر ملا ہیبت اللہ کا بیعت نہیں کرتے، ان کا افغانستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں،اور وہ کافر کافر ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے، کہ انہیں قتل کیا جائے گا۔ اور صوبہ بدخشاں سے بڑی تعداد میں تاجک خاندانوں کے گھر جلائےجانے کی اطلاعات ہیں اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہے۔ المختصر طالبان شدید جنگ کے موڈمیں ہیں اور اگلے ہفتے، جبکہ امریکی فوجی انخلاء مکمل ہوجائے گا تو درجنوں شہر جو محاصرے میں ہیں پھر دھاوا بولا جائے گا اور بھرپور جنگ چھیڑنے کی اطلاعات ہیں۔


یاد رہے سابق افغان صدر حامد کرزئی نے جنوری 2012 میں قطر میں  طالبان کے دفتر کی حمایت کا اعلان کیا تھا، جو اب  افغانستان کا سب سے بڑا جنگی فریق اورسیاسی گروپ کے طور پر سامنے آیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ  طالبان کے پیچھے حامد کرزئی کا ہاتھ سمجھتے ہیں۔


پشتون قبائل کے ساتھ ہزارہ کی جنگ چار ماہ پہلے ہی شروع ہوچکی ہے! طالبان نے پشتون قبائل کا ساتھ دیتے ہوئے علیپور ہزارہ کے خلاف ’اعلان جہاد‘ کیا، توافغان صدر اشرف غنی نے بھی قبائلی جنگ میں مداخلت کرتے ہوئے، ہزارہ پر بمباری شروع کی، جس میں ایک ہیلی کاپٹر بھی تباہ ہوا۔ امر اللہ صالح اور اشرف غنی دونوں آگ بگولہ ہوئے اور علی پور ہزارہ کے ملیشیا کے خلاف کارروائی کی گئی، اشرف غنی نے ہزارہ سے کہا کہ “ہتھیار ڈال دیں اور تسلیم ہوجائیں، اگرافغانستان میں ہزارہ کی جان محفوظ نہیں تو کہیں اور چلے جائیں’ جی! ہاں، یہ افغان صدر اشرف غنی کے الفاظ ہیں اور آج وہی اشرف غنی ہر افغان لیڈر خواہ تاجک ہو، یا اُزبک، ترکمن ہو یا ہزارہ کے پاؤں پکڑ رہے ہیں‘


لشکر بنانے کے لئے ہتھیار بھی دے رہے ہیں۔ تاریخ میں جانا نہیں چاہتا مگر امیر دوست محمد خان اور امیر عبدالرحمن خان جیسے زیرک افغان امیروں نے بھی ہزارہ کے خلاف اسی طرح کاروائی کی ہیں، اور طالبان نے بامیان محاصرے میں ہزاروں ہزارہ کاقتل عام کرکے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ افغان ہزارہ لیڈر عبدالعلی مزاری کی طالبان کے ہاتھوں دھوکے سے قتل کھبی نہیں بھولیں گے، اور کوئی اعتباربھی نہیں کریں گے۔ مگر اب طالبان نے حکمت عملی تبدیل کی ہے تو ہزارہ بھی اپنی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں، اور تاجک و ازُبک بھی خانہ جنگی کی صورت میں وہی پرانی مسلح تنظیمیں سامنے لائیں گے۔


پچھلے ایک سال میں ریکارڈ نکالیں، ہزارہ کے خلاف خونریز کاروائیاں ہوئی ہیں، سڑکوں پر بسوں سے اتار کر مارا گیا ہے،ہزارہ بچیوں اور بچوں کے سول، مساجد اور امام بارگاہیں ٹارگٹ ہوئی ہیں۔ پرانے زمانے میں ترکمنستان کے غلام مارکیٹ ہزارہ شیعوں سے بھرے پڑے تھے جو یہاں سے اُٹھا کر وہاں نقد رقم کے عوض بیچ دیئے جاتے تھے، الیگزنڈر برنس نے دو سو سال پہلے ان غلام مارکیٹوں کا ذکر اپنی سفرنامے کی تین کتابوں میں تفصیل سے کیا ہے، اور آخر میں پہلی اینگلو افغان کے پانچ ہزار قیدی بھی انہی غلام مارکیٹوں میں بیچ دیئے گئے تھے۔


 خیر، اب تو حالات اتنے بدل گئے ہیں کہ کتوبر 2020 میں ایرانی وزات خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات پر بات کرتے ہوئے انہیں ' امریکہ کے لیے تاریخی سکینڈل' قرار دیا تو طالبان نے صاف کہہ دیا کہ افغان مذاکرات میں ایران دخل نہ دے۔ مگر اس کے بعد طالبان کے سیاسی وفد نے ایران کا دورہ کیا، اوروزیرخارجہ جواد ظریف سے ملاقات کی۔


یہ ایک بڑی اہم پیش رفت ہے، اور اس کے ثمرت بھی آنا شروع ہوئے ہیں۔ نیم سرکاری ایرانی نیوز ایجنسی "تسنيم" کے ڈائریکٹر جنرل برائے خارجہ امور حسام رضوی نے ایک انٹریو میں افغانستان کی ہزارہ شیعہ برادری کو طالبان کے خلاف ہتھیار نہ اٹھانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہزارہ قبیلہ طالبان کے خلاف لڑائی شروع کرتا ہے، تو افغان جنگ سیاسی کی بجائے مسلکی  رنگ اختیار کرے گی، جو امریکہ عراق اور شام میں بھی چاہتے ہیں اور اب افغانستان میں بھی یہیچانا چاہتے ہیں، کہ طالبان اور ہزارہ آپس میں لڑیں، روزنامہ  ’کیھان‘ میں بھی ’ طالبان نے اپنا انداز بدل دیا ہے اور وہ اب قاتل نہیں رہے‘  طالبان تغییر رویه داده و دیگر سر نمی‌برد کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے، جس کا لب لباب وہی ہے جو حسام رضوی نے کہا ہے۔ کہ ’امریکا افغانستان کو مسلکی جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے، مگر حسام رضوی نے تاریخی بددیانتی کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے نہ تو ماضی میں اہل تشیع کا قتل عام کیا اور نہ مستقبل میں ایسا کوئی امکان ہے‘۔


حسام رضوی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ “اگرافغانستان کے ہزارہ شیعہ امریکی اسلحہ لےکرطالبان کے خلاف لڑائی شروع کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی ذمہ داری مقامی شیعہ برادری پرعائد ہوگی۔ یہ نہایت بیہودہ تجزیہ ہے۔حسام رضوی نے اپنے انٹرویو میں افغانستان کی شیعہ برادری پر زور دیا کہ وہ طالبان کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائیں۔ بیہودہ تجزیہ اسلئے میں نے اس لئے کہا کہ افغانستان کی تاریخ شیعہ ہزارہ قتل عام سے بھری پڑی ہے اور طالبان نے 1996 میں بامیان محاصرے اور قبضہ کے وقت  ہزارہ قبیلہ کا جو قتل عام کیا تھا، اسے اقوام متحدہ نے جنگی جرائم کا ارتکاب کہا ہے۔ اور ہزارہ آج بھی طالبان کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔


بحیثیت مجموعی طالبان اور ہزارہ قبیلے کے ٹکراؤ سے متعلق حسام رضوی نے ٹھیک نشاندہی کی ہے، روزنامہ کیھان نے بھی ٹھیک کہا ہے، اگر طالبان ہزارہ شیعہ قبائل سے نہیں لڑتے، تو ہزارہ کو بھی چاہیے کہ طالبان کے خلاف ہتھیار نہ اُٹھائیں۔ ایرانی میڈیا کی افغانستان پر گہری نظر ہے، وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیسے شمالی اتحاد طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ کئے ہوئے ہیں، طالبان افغانستان کے شمال میں کسی مزاحمت کے بغیر قبضہ کررہے ہیں، رشید دوستم نے ہتھیار اُٹھائے ہیں اورنہ احمد شاہ محسود کی بیٹے نے طالبان کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ جبکہ کندھار میں حامد کرزئی اپنا سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔  اگر سب خاموش ہیں تو ہزارہ افغانستان کا جنگ کیوں اپنے سر لیں؟؟ جس میں ان کی نسل کشی کے خطرات نظر آرہے ہیں۔ حسام رضوی کے انٹرویو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر عرب میڈیا اور بی بی سی فارسی اور انڈپنڈنٹ فارسی نے پروپیگنڈا کیا ہے۔


اس سے زیادہ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ طالبان ذرائع اور پروپیگنڈا اکاؤنٹس ایک تصویر شئیر کررہے ہیں جس میں بتایا جارہا ہے کہ طالبان کے رئیس، شعبہ دعوت و ارشاد، امیر خان متقی  نے ایکندي، کجران کے اہل تشيع ہزارہ قبیلے سے ملاقات کی ہے اور انہیں امارت اسلامیہ کا  پیغام پہنچایا، اور طرز نظام جس میں سب افغانوں کو ساتھ ملا کر آگے چلنے کو کہا گیا اور دیگر معاملات سے آگاہ کیا۔ اس ملاقات کے حوالے سے میری افغان (ہزارہ) ذرائع سے بات ہوئی تو انہوں نے  کہا کہ طالبان کے ساتھ ہزارہ پہلے ہی دست و گریباں ہیں اور طالبان روزانہ ان پر حملے کررہے ہیں، یہ ملاقات بلوچ اہل تشیع قبائل سے ہوئی ہے اور ان کوخبردار کیا گیا ہے کہ طالبان کے خلاف ہتھیار اُٹھانے کی غلطی نہ کریں، ورنہ سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ اس ملاقات کا مقصد دراصل یہ  متنبیہ کرنا تھا۔



مگر بحیثیت مجموعی افغان ہزارہ لیڈرز کے مطابق تو ایران اور  طالبان لیڈرز (قطر گروپ) ٹھیک کہہ رہے ہیں، مگر ’ہم طالبان کے ہاتھوں ہزارہ قتل عام نہیں بھول سکتے‘ اور افغان ہزارہ نوجوان بھی ایران اور  طالبان کے بدلتے روئے پر ششدر رہ گئے ہیں۔

پشاور سے ذرائع کے مطابق حکومت  پاکستان اور مہاجرین کے بین القوامی ایجنسیز نے اندازہ لگایا ہے کہ سب سے زیادہ افغان مہاجرین چترال کے راستےپاکستان آ سکتے ہیں۔  تین مختلف اندازے لگائے ہیں، کہ پندرہ سے لیکر پینتیس لاکھ افغان مہاجرین  پاکستان آ سکتے ہیں۔ انڈیپپڈنٹ نیوز کے مطابق کابل میں افغان وزارت داخلہ روزانہ دس ہزار پاسپورٹ ایشو کررہے ہیں مگر پاسپورٹ دفتر پر رش مزید بڑھ گیا ہے اور افغانستان سے ترکمانستان کا ویزہ جو پہلے صرف 100 ڈالر میں لگتا تھا اب 1500 ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

توعبداللہ عبدللہ کے مطابق ’بقای افغانستان در خطر است‘ اور افغانستان میں تعینات بین الاقومی فورسز کے امریکی جنرل، آسٹن ملر کے مطابق ’امریکی انخلاء کے بعد افغانستان خانہ جنگی کی نذر ہو جائے گا، اور دنیا کو فکرمند ہونا چاہئے‘ جبکہ افغانستان میں مختلف فریق میدان جنگ میں کود پڑے ہیں  جس کا فی الحال کوئی راہ حل نظر نہیں آرہا، اور آئندہ چند ہفتے اہمیت کے حامل ہیں جو افغانستان کے مستقبل کا تعین کریں گے کہ افغانستان کس طرف جا رہا ہے۔ اللہ تعالی افغانستان کی صورتحال پر رحم فرمائیں اور جنگ کو امن میں تبدیل فرمائیں، یہی دعا کی جاسکتی ہے۔

احمد طوری سماجی کارکن اور بلاگر ہیں۔