امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ معاملہ تنازعات کا شکار ہونے لگا ہے۔
اس تناو کی بنیاد گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی کا یہ بیان بنا کہ دوحا معاہدے کے برعکس ان کی حکومت نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ جس کے جواب میں اب طالبان نے صرف افغان افواج پر حملے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اعلان کے مطابق وہ افغان فوج کو نشانہ بنائیں گے لیکن غیر ملکی افواج انکا نشانہ نہیں ہوں گی۔ تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا تھا کہ وہ بین الافغان مذاکرات کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں لیکن ہم اپنے 5000 قیدیوں کی رہائی کا انتظار کر رہے ہیں ۔ دوسری جانب امریکہ نے اس معاہدے کے حوالے سے اپنی شرط کے طور پر تشدد میں کمی کو معاہدے کے لئے لازم قرار دیے رکھا ہے ۔
ایسے میں تجزیہ کار طالبان اور افغان حکومت کے آمنے سامنے آنے کے بعد امن معاہدے کی حیثیت پر سوال اٹھا رہے ہیں جبکہ اس حوالے سے تشویش پائی جارہی ہے کہ اگر صورتحال میں کشیدگی بڑھی تو معاہدہ بے اثر ہوسکتا ہے ۔