بلوچستان میں بدامنی کے بینیفشری لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتے

انتظامیہ کے بقول اہل خانہ نے 12 افراد کی فہرست دی تھی جن میں سے 6 افراد بازیاب کرائے جا چکے ہیں اور مزید 6 کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ دوسری جانب مظاہرین کا الزام ہے کہ 6 افراد کو رہا کیے جانے کے بعد مزید کئی نوجوان جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ہیں۔

بلوچستان میں بدامنی کے بینیفشری لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتے

کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی دہائیوں پر محیط تحریک کے بعد اب ضلع کیچ اور ضلع گوادر میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دو مختلف مقامات پر بیک وقت احتجاجی دھرنا دیا جا رہا ہے۔

ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت میں ڈپٹی کمشنر آفس کے مرکزی گیٹ پر اور ضلع گوادر میں کوسٹل ہائی وے پر لاپتہ افراد کے اہل خانہ، مقامی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے روڈ بلاک کیا ہوا ہے۔

ضلع کیچ میں ڈپٹی کمشنر اور کمشنر مکران ڈویژن کے آفس مسلسل 8 دنوں سے دھرنا کے سبب بند ہیں۔ اس کے ساتھ ہی محکمہ خزانہ کا ضلعی آفس اور ڈسٹرکٹ کونسل کیچ کے آفس بھی بند کیے گئے ہیں۔ اس سے ضلعی انتظامیہ کو اپنے روزمرہ امور نمٹانے میں دقت کا سامنا ہے۔ اے ڈی سی کیچ کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر بلیدہ سے تعلق رکھنے والے 12 مختلف خاندان اس دھرنے میں شامل تھے جس کا آغاز 2 جون کو ہوا تھا، تاہم انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان 6 جون کو مذاکرات میں ان افراد کی بازیابی کی یقین دہانی کے باعث دھرنا مؤخر کر دیا گیا۔

انتظامیہ کے بقول اہل خانہ نے 12 افراد کی فہرست دی تھی جن میں سے 6 افراد بازیاب کرائے جا چکے ہیں اور مزید 6 کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ دوسری جانب مظاہرین کا الزام ہے کہ 6 افراد کو رہا کیے جانے کے بعد مزید کئی نوجوان جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے ابتدائی دھرنا کے بعد 12 افراد کو تین دنوں میں رہا کرنے کی شرط پر احتجاج ختم کرایا تھا لیکن اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور ابھی تک اس لسٹ میں سے 6 افراد لاپتہ ہیں۔

انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اس بات پر زور دیا کہ مظاہرین پُرامن رہیں اور ہماری کوششوں کا انتظار کریں کیونکہ ان کے بقول احتجاج سے حکومت کو پریشر میں لایا جا سکتا ہے اور نا ہی ایسا کر کے دباؤ کے ذریعے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔

تربت میں ڈپٹی کمشنر آفس کے مرکزی گیٹ کے سامنے دھرنے میں اس وقت 10 لاپتہ افراد کے فیملی ممبران شامل ہیں۔ ان میں سے ایک فتح میار نامی 17 سالہ نوجوان کا خاندان بھی ہے۔ فتح کے والد میار اپنے پوتوں کے ساتھ اس سے پہلے بھی مظاہروں اور ریلیوں کا حصہ رہے ہیں۔ فتح کو جون 2023 کو تربت سے لاپتہ کیا گیا تھا۔ فتح کے 60 سالہ والد ناکو میار ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی سربراہی میں اسلام آباد تک لانگ مارچ میں شامل رہے ہیں۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

تربت دھرنا میں شامل زیادہ تر لاپتہ افراد کا تعلق بلیدہ سے ہے تاہم ان میں ڈاکٹر رفیق احمد کی فیملی بھی شامل ہے جن کا تعلق تربت کے دیہی علاقہ شے کھن سے ہے۔ ڈاکٹر رفیق احمد کو 11 اگست 2023 کو کراچی کی موبائل مارکیٹ سے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا گیا تھا۔ دھرنا میں ان کی بیٹی سمی بلوچ اپنے ابو کی تصویر لیے حکام سے ان کی بازیابی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما اور دھرنے کے ایک منتظم وسیم سفر کے مطابق ڈپٹی کمشنر کیچ کے آفس کے سامنے اس دھرنے کا آغاز 20 جون کو کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے 17 جون کو عید کے دن تربت میں فدا شہید چوک پر احتجاجی کیمپ قائم کیا گیا تھا۔ اس کے چار دن بعد احتجاجی کیمپ ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے منتقل کیا گیا۔

وسیم سفر کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے لاپتہ افراد کی فیملی کے ساتھ دو مرتبہ مذاکرات کیے جو ناکام رہے۔ آخری مذاکرات گذشتہ پیر کو ڈپٹی کمشنر کی جانب سے اے ڈی سی کیچ خلیل مراد نے کیے تاہم وہ متاثرہ فیملی کو مطمئن نہیں کر سکے۔ اس لیے انتظامیہ کے کہنے پر لاپتہ افراد کے فیملی ممبران نے احتجاج ختم کرنے سے انکار کر دیا۔

سیاسی جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز کیچ نے ضلع کیچ میں جبری گمشدگی کے واقعات پر تشویش ظاہر کی ہے۔ آل پارٹیز نے صوبائی حکومت سے ایسے واقعات کے تدارک اور جبری لاپتہ افراد کی فوری رہائی کے ساتھ تربت میں کئی دنوں سے جاری دھرنا ختم کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایسا ہی مطالبہ حق دو تحریک کے چیئرمین حسین واڈیلہ نے منگل کو دھرنا گاہ میں یکجہتی کے لیے آتے وقت کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں کسی شہری کی جبری گمشدگی کا جواز موجود نہیں۔ جن لوگوں کو لاپتہ کیا گیا یا کیا جا رہا ہے یہ عمل غیر قانونی ہے جس کا عدلیہ کو نوٹس لینا چاہیے۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کوئی افسانہ ہے اور نا ہی قدیم زمانے کا قصہ بلکہ روز نئی شدت کے ساتھ بلوچستان کو آگ میں جھونک کر نظارہ دیکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ لاپتہ افراد کا گھمبیر مسئلہ ہو یا بنیادی انسانی حقوق کی صورت حال، عام لوگ دو دہائیوں سے آگ اور خون کے اس غیر انسانی اور تہذیب سے عاری کھیل کا بلاوجہ حصہ بنا دیے گئے ہیں۔ اس کھیل میں ایسے لوگ فائدہ سمیٹ رہے ہیں جن کا وجود بلوچستان پر بوجھ بنتا جا رہا ہے۔ جنگ کے یہ بینیفشری اس جنگ اور انسانی المیہ کو ہر صورت میں جاری رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جنگ سے ناصرف ان کے بے نام وجود کو نام و مقام ملا ہے بلکہ ان کی روزی روٹی اور روزگار کا وسیلہ بھی اس سے منسلک ہے۔ سیاست کی الف بے سے ناواقف بلوچستان اسمبلی کے 90 فیصد اراکین اس جنگ کے بینیفشری شمار ہوتے ہیں۔