’میرے بابا کہاں ہیں؟‘ فراح ابرار کے 4 بچوں کا ماں سے سوال، شیعہ مسنگ پرسنز کے لواحقین کا پرسان حال کون؟

’میرے بابا کہاں ہیں؟‘ فراح ابرار کے 4 بچوں کا ماں سے سوال، شیعہ مسنگ پرسنز کے لواحقین کا پرسان حال کون؟
19 ستمبر 2019 فرح ابرار اور ان کے خاندان کے لئے ایک معمول کی رات تھی اور ان کے خاوند ابرار احمد رضوی کام سے تھکے ہارے واپس آئے تو معمول سے پہلے سوگئے. رات کے تین بجے کے قریب ان کے گھر کے دروازوں پر لاتوں اور مشین گنوں کی بٹوں کی بارش شروع ہوئی اور ایسا لگ رہا تھا کہ سب کچھ گر جائے گا. مگر کچھ لمحے بعد جب میں نے دروازہ کھولا تو گھر کے سامنے سرکاری گاڑیوں سمیت پولیس کی گاڑیاں بھی موجود تھی اور پورا محلہ اس شور اور خوف سے آٹھ کر باہر آگیا تھا. دروازہ کھولنے کے بعد انھوں نے میرے خاوند کو کندھے سے پکڑ کر کہا کہ چلو ہمارے ساتھ. میں نے بہت منت سماجت کی کہ میرے خاوند کو کیوں لیکر جارہا ہیں مگر کسی نے ایک نہیں سنی اور وہ ان کو ساتھ لیکر گئے.

یہ کہانی کراچی سے تعلق رکھنے چونتیس سالہ فرح ابرار کی ہے جو چار بچوں کی ماں ہے اور گزشتہ دو سالوں سے اپنے گمشدہ خاوند ابرار احمد رضوی کی تلاش میں ہے جن کو مبینہ طور پر ریاستی اداروں نے جبری طور پر گمشدہ کیا۔  فرح ابرار گزشتہ 27 دن سے مزار قائد کراچی پر 33 دیگر خاندانوں کے ساتھ پرامن دھرنا دیں رہی ہے اور اس دھرنے میں وہ لوگ شامل ہے جن کے لواحقین کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا.

فرح ابرار کے مطابق ان کے خاوند کراچی میں پرنٹنگ پریس کی اپنی دکان چلا رہے تھے اور ان کا خاندان آسودہ حال تھا اور ابرار کے گمشدگی سے پہلے ان کے تین بچے تھے جبکہ گمشدگی کے بعد ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی. فرح ابرار کے مطابق ان کے خاوند جارہانہ مذہبی خیالات کے حامی نہیں تھے اور وہ معتدل سوچ رکھنے والے انسان تھے جن کو انسانیت سے محبت تھی. فرح ابرار کے مطابق جب ان کو زبردستی لے جایا گیا تو محلے والوں نے گھر آکر بھیک مانگی کہ محلے کا سکون برباد نہ کرو اور یہ محلہ چھوڑ کر چلی جاؤ.

ملک میں اہل تشیع مسلک کے گمشدگیوں پر کام کرنے کارکن اسد گوکال نے نیا دور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مزار قائد کے اس دھرنے پر کراچی کی سولہ اور ملک کے دیگر علاقوں کی کل 33 خاندان جبری طور پر گمشدہ افراد کے لئے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔ ساجد نے مزید کہا کہ کراچی، کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، گلگت اور پارہ چنار سمیت کئی علاقوں کے نوجوانوں کو خالص مسلک کی بنیاد پر جبری طور پر گمشدہ کیا گیا جن کا تاحال پتہ نہیں چل سکا۔ ساجد کے مطابق مسلک کی بنیاد پر پہلا فرد 2010 میں اٹھایا گیا تھا جبکہ آخری فرد اس دھرنے سے تین روز پہلے اٹھایا گیا جن کا نام سردار تنویر بلوچ ہے اور ان کا تعلق پنجاب کے شہر سرگودھا سے ہے۔

ملک کے خفیہ ادارے انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے ایک اعلی عہدیدار کے مطابق مسلک کی بنیاد پر کسی کو نہیں اٹھایا گیا بلکہ ان افراد کو زیادہ تر اٹھایا گیا ہے جنہوں نے شام، ایران اور عراق میں عسکری تربیت لی اور ملک واپس لوٹے اور پھر یہاں عسکریت پسندی اور نفرت آمیز مہمات کا حصہ رہے. آئی بی کے عہدیدار کے مطابق گزشتہ دو مہینے میں اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھنے والے بارہ ایسے افراد کو تحویل میں لیا گیا جن کا تعلق عسکریت پسند تنظیم زینبین سے ہے اور انھوں نے باقاعدہ ایران، عراق اور شام میں عسکری تربیت لی ہے. ان کے مطابق ملک میں بہت حد تک امن قائم ہوچکا ہے اور کسی کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ بیرون ملک جاکر عسکری تربیت لے اور ملک واپس لوٹ کر مشکوک سرگرمیوں میں ملوث رہے.

فرح ابرار کو یقین ہے کہ ان کے خاوند بےگناہ ہیں اور انکا خیال ہے کہ صدر پاکستان جناب عارف علوی کے کراچی گھر کے سامنے دھرنا اور احتجاج کرنے پر اٹھایا گیا ہے. فرح کے مطابق ان کے خاوند نے جبری گمشدگی سے چھ مہینے قبل اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر مسلک کی بنیاد پر اٹھائے گئے افراد کے حق میں صدر پاکستان کے کراچی گھر کے سامنے احتجاج کیا تھا۔ فرح کے مطابق جب یہ احتجاج 2019 میں شروع ہوا تو بہت سارے لوگوں نے ہمیں کہا کہ آپ کے خاوند نظروں میں آجائین گے اور ان کےسنگین نتائج سامنے آئینگے اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق عراق، شام اور ایران میں کالعدم تنظیموں کی تربیت حاصل کرنے کے بعد ان کارکنوں کو مبینہ طور پر دولت اسلامیہ کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے کیونکہ وہ شیعہ مخالف سخت گیر خیالات رکھتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں مزارات پر حملے کرنے میں ملوث رہے مگر اہل تشیع سماجی اور سیاسی کارکن اس دعوے کی نفی کرتی ہے اور ان کا موقف ہے کہ باہر ممالک میں زیارتوں پر جانے کے بعد ان کے مسلک کے لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے.

ملک میں جبری گمشدگیوں پر کئی شہروں میں احتجاج اور دھرنے ہوتے رہتے ہیں اور دھرنوں کے شرکاء اور لواحقین فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر جبری  اغوا کرنے کے الزامات لگاتے ہیں مگر فوج اور ان کے ادارے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں.

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا شکار افراد کا سراغ لگانے والے کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2011 سے اب تک کمیشن کے پاس چھ ہزار سے زیادہ جبری گمشدگیوں کے کیسز درج ہوئے جن میں دو ہزار سے زیادہ افراد تاحال لاپتہ ہے۔ کمیشن کے مطابق فوج کی زیر نگرانی حراستی مراکز میں کل 808 افراد قید ہیں جن میں زیادہ تعداد خیبرپختونخوا کے شہریوں کی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر پنجاب ہے۔ کمیشن کے مطابق ملک میں گزشتہ نو سالوں میں 205 سے زیادہ افراد کی نعشیں ملی ہیں۔

ساجد گوکال کے مطابق یہ خاندان گزشتہ 27 روز سے دھرنا دے رہے ہیں اور سندھ حکومت کی جانب سے شہلا رضا نے بھی ان کے ساتھ ہمدردی کے لئے یہاں پہنچیں۔

فرح ابرار کے مطابق جبری گمشدگی سے ایک سال پہلے میں اپنے خاوند کے ساتھ عراق زیارت کرنے گئی تھی اور وہ ابرار کی خواہش کم اور میری زیادہ تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ کبھی ابرار کی شخصیت میں مجھے ایسا نہیں لگا کہ وہ کسی دہشت گرد تنظیم یا کسی نفرت انگیز مہم کا حصہ رہا ہو جن کی بنیاد پر ان کو اٹھایا گیا ہو۔ ابرار کی گمشدگی کے بعد فرح نے کئی عدالتوں کا رخ کیا مگر تاحال ان کے خاوند کا پتہ نہیں چل سکا کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔
فرح ابرار کہتی ہے میرے بچے ابو کی راہ تکتے ہیں اور اب تو ابو کی راہ تکتے تکتے وہ مایوس ہوچکے ہیں اور ایک ہی سوال کرتے ہیں ان کے بابا گھر کب لوٹینگے۔ فرح ابرار نے بتایا میں حکومت اور ریاستی اداروں سے یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ میرے خاوند کو رہا کیا جائے مگر میری ایک ہی التجا ہے کہ میں اور میرے بچوں کی زندگی اور خوشی کے لئے ایک بار ملاقات کی جائے یا ان کو عدالت میں پیش کیا جائے اور ہمیں بتایا جائے کہ ان پر الزامات کیا ہیں؟

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔