سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کہتے ہیں کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس فاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرتے ہوئے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے جب کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے۔
سابق چیف جسٹس کے مطابق، سپریم کورٹ کے جج کے خلاف وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ایما پر ریفرنس دائر کیا گیا۔
انہوں نے کہا، یہ ریفرنس وزیراعظم یا صدر کے آفس سے نہیں بلکہ اٹارنی جنرل کے توسط سے سپریم جوڈیشل کونسل میں جانا چاہئے تھا۔
سابق چیف جسٹس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس کیس میں بظاہر جو واضح کمی دکھائی دے رہی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ فیصلے کرتے ہوئے کابینہ سے اجازت نہیں لی گئی۔
انہوں نے یہ باور کروایا کہ وزیراعظم پارلیمانی نظام حکومت میں حکومتی معاملات کو چلانے کا اکیلا ذمہ دار نہیں ہوتا۔
سابق چیف جسٹس نے آئین کے آرٹیکل 90 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، 2016 میں مصطفی امپیکس کیس میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ کہا تھا کہ کابینہ وفاقی حکومت کا ایک اہم حصہ ہے جو وزیراعظم اور وفاقی وزرا پر مشتمل ہے۔