’صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم جوڈیشل کونسل میں نہیں کھڑے پوری عدلیہ کا ٹرائل ہے‘

’صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم جوڈیشل کونسل میں نہیں کھڑے پوری عدلیہ کا ٹرائل ہے‘
12 بجے کورٹ روم نمبر ون میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی درخواست کی سماعت کا وقت مقرر تھا لیکن فُل کورٹ کے ججز 12 بج کر 10 منٹ پر کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ کچھ نوجوان صحافی ججز کے دیر سے آنے پر متعرض تھے تو ہم سب کے سینئر ناصر اقبال، میں نے اور عمران وسیم نے اُن کو سمجھایا کہ یہ کسی منسٹر کی پریس کانفرنس نہیں جِس کا بائیکاٹ ہوتا ہے۔

بہرحال عدالت لگی تو فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کے بائیں طرف پنجابی جج منظور ملک پھر پختون جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، پھر پنجابی جج منصور علی شاہ اور پختون جسٹس یحیٰ آفریدی بیٹھے تھے جبکہ دائیں جانب اُردو سپیکنگ جج جسٹس مقبول باقر پھر سندھی جسٹس فیصل عرب، سندھ کے ہی جسٹس سجاد علی شاہ اور سندھ سے ہی جسٹس منیب اختر اور آخر میں جسٹس قاضی محمد امین بالترتیب بیٹھے تھے۔ یعنی فُل کورٹ کے سربراہ کے دائیں ہاتھ سندھ ہائیکورٹ سے آئے ججز کی اکثریت ہے جبکہ بائیں ہاتھ پنجابی اور پختون ججوں کی برابر نمائندگی ہے۔ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک سمیت درخواستگزار وکلا کی ایک بڑی تعداد بشمول اٹارنی جنرل روسٹرم پر کھڑی تھی۔



جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کا آغاز اٹارنی جنرل سے سوال پوچھ کر کیا کہ آپ نے ابھی تک جواب داخل نہیں کروایا۔ اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان نے جواب دیا کہ بیرونِ ملک سے دو دِن پہلے واپسی ہوئی ہے اور ابھی کیس فائل پڑھی نہیں، پڑھ کر جواب دوں گا۔ فُل کورٹ کے سربراہ نے ریمارکس دیئے کہ بینچ کے ایک رُکن جج نے دو ہفتے بعد اسلام آباد میں نہیں ہونا اور ہم اِس لیے چاہتے ہیں کہ تیزی سے آگے بڑھیں اِس لیے اٹارنی جنرل اگلے دو ہفتے اپنی دستیابی یقینی بنائیں۔ اِس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ صرف اگلے ہفتے دستیاب ہیں اُس کے بعد انہوں نے قومی ذمہٰ داری ادا کرنے بیرونِ ملک جانا ہے اور پھر اُن کی واپسی 18 اکتوبر کے بعد ہوگی۔

اٹارنی جنرل کو سننے کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کو ویلکم بیک کہہ کر دلائل کی دعوت دی۔ اِس موقع پر فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال، سینئر وکیل منیر اے ملک کی خیریت بھی دریافت کی۔ منیر اے ملک ایڈوکیٹ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اپنی صحت کے بارے میں سماعت کے بعد علیحدگی میں آگاہ کروں گا جس پر فل کورٹ میں شامل تمام ججز نے قہقہ لگایا۔ منیر ملک نے دلائل کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وہ سب سے پہلے آرٹیکل 211 پر بات کرنا چاہیں گے۔

قارئین کو سمجھانے کے لیے بتانا چاہتا ہوں کہ آرٹیکل 211 سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو کسی بھی عدالت میں چیلنج کرنے سے تحفظ دیتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کا کہنا تھا کہ ریفرنس میں موجود الزامات بدنیتی پر مبنی ہیں اور اِن الزامات کو لگانے کے لیے قانون کا استعمال بھی بدنیتی پر مبنی ہے۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ اِس مُقدمہ کے حقائق مختلف ہیں کیونکہ ناں تو درخواستگزار جج نظر بند یا قید ہیں اور ناں ہی اُن کو معطل کیا گیا ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اِس موقع پر آبزرویشن دی کہ ہاں سُپریم کورٹ کے جج کی نگرانی ایک نیا پہلو ہے اور یہ شکایت کُنندہ ڈوگر کون ہے؟ مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ فوراً بولے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جج کی نگرانی کی گئی تو اِس پہلو کو دیکھیں۔



جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم آرٹیکل 211 کو بھی دیکھیں گے اور آپ بدنیتی پر ضرور دلائل دیں کہ آپ کی مراد کِس کی بدنیتی سے ہے اور جِس کی بدنیتی آپ بتائیں گے اُس سے جواب بھی عدالت طلب کرے گی لیکن آخر میں فیصلہ آئین اور قانون پر ہی ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کونسل کا کہنا تھا کہ یہ سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف سوچی سمجھی مُہم ہے تاکہ اُس کو اُس کے تحریر کردہ فیصلوں کی سزا دی جائے اور اِس کے لیے اُس کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل سے استفسار کیا کہ ہم آپ کی بات سمجھ گئے ہیں لیکن کیا جن الزامات کی بُنیاد پر ریفرنس بھیجا گیا وہ نکات غلط ہیں یا صحیح؟ کیونکہ آپ ریفرنس کے نکات کی تردید نہیں کر رہے اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے اُس کے نتائج کیا ہوں گے۔

جسٹس عُمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ ہم نہیں کہتے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کسی بھی قسم کی کرپشن کے الزامات ہیں لیکن جب وہ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تھے تو انہوں نے تین جائیدادیں خریدیں جِس کا سوال پوچھا جا رہا ہے تو کیا یہ نظر انداز کر دیں؟ مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ کا جواب تھا کہ اِس تمام الزام کا میرے بدنیتی والے دلائل سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کرپشن کا نہیں ٹیکس ریٹرن کا معاملہ ہے۔ مُنیر اے ملک کا مزید کہنا تھا کہ جِن جائیدادوں کی بات ہو رہی وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہلخانہ کی ہیں اور جج کا کہنا ہے کہ اہلخانہ اُن کے زیرِ کفالت نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک کا اِس موقع پر کہنا تھا کہ یہ عام مُقدمہ نہیں، صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سُپریم جوڈیشل کونسل میں نہیں کھڑا کیا گیا بلکہ پوری عدلیہ کا ٹرائل ہو رہا ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ یہ مُقدمہ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کی سمت کا تعین بھی کرے گا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمیں جلد فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ مقدمہ یہاں سُنا جائے گا یا اِس ریفرنس کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرے گی۔ مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ نے بدنیتی پر اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ بدنیتی کا معاملہ ہے اور اِس کے تباہ کُن اثرات عدلیہ کی خودمُختاری پر ہوں گے جِس سے آپ کو اپنے اداروں کو بچانا چاہیے۔



یہ بھی پڑھیے: فُل کورٹ ججز کا شخصی خاکہ اور جسٹس عیسیٰ کیس کا نیا منظر نامہ







جسٹس عُمر عطا بندیال کا اِس نُکتے پر کہنا تھا کہ وہ بالکل اِس ہی لیے یہاں بیٹھے ہیں اور جسٹس عیسیٰ کے اعتراض پر ہی دو ججز نے یہ کیس سُننے سے انکار کیا جو کے ایک تکلیف دہ امر تھا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ سے سماعت مُلتوی کرنے کی درخواست پر سوال کیا کہ اگر وہ مُقدمہ کو لمبا چلانا چاہتے ہیں تو وہ ایک ہفتے کے لیے مُلتوی کرسکتے ہیں اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ مُقدمہ تیزی سے چلے تو کل کی تاریخ بھی دے سکتے ہیں۔ مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ کا اِس پر جواب تھا کہ ابھی اٹارنی جنرل کا جواب اُنکو ملا نہیں اور جب ملے گا تو پڑھنے کے لیے وقت درکار ہوگا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ عوام میں اِس کیس کی وجہ سے بے چینی ہے اور ہمارے لیے بھی یہ ایک فِکر مندی کا معاملہ ہے کیونکہ ہمارے ایک ساتھی جج پر الزام لگا ہے اِس لیے چاہتے ہیں اِسی ہفتے سماعت کریں۔

فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک میں مُکالمہ جاری تھا کہ جسٹس بندیال کے دائیں ہاتھ بیٹھے اُردو سپیکنگ جج جسٹس مقبول باقر نے مُداخلت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ وہ کب تک جواب جمع کروائیں گے؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تمام دستاویزت تو جمع کروائی جا چکی ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دئیے کہ دستاویزات موجود ہیں بھی تو اٹارنی جنرل کو جواب تحریری ہی دینا ہوگا جِس کے بعد درخواستگزار وُکلا کو پڑھنے کے لیے وقت بھی چاہیے ہوگا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اپنے ساتھی جسٹس مقبول باقر کا ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ صدر اور وزیراعظم کا جواب بھی چاہیے ہوگا۔ جسٹس بندیال کا مزید کہنا تھا کہ اگر بیانِ حلفی کی دستاویز مِل جائے تو ہماری ایڈوکیٹ مُنیر اے ملک سے درخواست ہوگی کہ وہ جلد مطالعہ کرکے کوئی قریبی تاریخ سماعت کے لیے مانگیں۔ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کا اٹارنی جنرل پر اظہارِ ناگواری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مقدمہ میں تعطل آپ کی وجہ سے آرہا ہے۔ جسٹس بندیال نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ جواب جمع کرواتے وقت ایک کاپی ایڈوکیٹ مُنیر اے ملک کو بھی فوری دیں گے۔

یہ مُکالمہ ختم ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے ذومعنی انداز میں سوال اُٹھایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا نمائندہ کیا وفاق کے نمائندے اٹارنی جنرل کو سمجھا جائے؟ کیونکہ سُپریم جوڈیشل کونسل کا جواب اٹارنی جنرل نے جمع کروایا ہے۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سُپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت کُنندہ ہے اور سُپریم جوڈیشل کونسل میں وفاق کی طرف سے اٹارنی جنرل ہی پیش ہو رہے ہیں۔ بار رومز میں یہ موضوعِ بحث ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے فُل کورٹ کے روبرو اپنے جواب کے لیے وفاق کے نمائندہ اٹارنی جنرل کا انتخاب کر کے دراصل خود کو وفاق کے ہمراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک پارٹی نہیں بنا لیا؟



یہ بھی پڑھیے: مُنیر اے ملک کے دلائل پر تناؤ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کرنے والا لارجر بینچ کیسے ٹوٹا؟







بہرحال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک کے سوال میں چُھپے اعتراض کو بھانپتے ہوئے جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ سُپریم جوڈیشل کونسل میں کون بیٹھتا ہے اور وہ سب شخصیات ہمارے لیے بہت مُحترم ہیں۔ فُل کورٹ کے سربراہ نے مزید ریمارکس دئیے کہ ہم نے عدلیہ کے وقار کا بھی خیال رکھنا ہے آپ شخصیات نہیں قانونی نکات پر بات کیا کریں اور ہم مُنیر اے ملک صاحب سے توقع کرتے ہیں کہ وہ کسی زیرو میٹر تھیوری کے ساتھ سامنے آیا کریں۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُسکراتے ہوئے کہا کہ ہمیں اُس وقت کا انتظار ہے جب مُنیر اے ملک اپنے ساتھی وُکلا کے ساتھ کمرہِ عدالت میں قانونی نکات پر دھاڑ رہے ہوں گے۔ مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ نے سماعت اگلے منگل تک مُلتوی کرنے کی درخواست کی تو جسٹس عُمر عطا بندیال نے کہا کہ وہ جمعرات یا سوموار تجویر کریں گے۔ اپنے ساتھی ججز سے مشورہ کے بعد جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ کو کہا کہ بینچ میں آپ کو کافی حمایت حاصل ہے اِس لیے اگلے سوموار کی تاریخ مُقرر کررہا ہوں۔

اِس موقع پر سابق صدر سُپریم کورٹ بار رشید اے رضوی نے مُداخلت کرتے ہوئے سوال کیا کہ عدالت ہمیں سُن ہی نہیں رہی ہم بھی کیس میں فریق ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کیا ملے گا؟ جسٹس عُمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ یہ کیک نہیں ہے جِس سے آپ کو اپنا حصہ چاہیے یہ مُقدمہ ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دئیے کہ ہم آپ کو بھی سُنیں گے۔ رشید اے رضوی ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل ہمارے نکات کا جواب نہیں جمع کروا رہے۔ اٹارنی جنرل نے فُل کورٹ کو مُخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعتراضات پر جواب جمع کروانا ہے اور باقی درخواستگزار اُس کو ہی پڑھ لیں کیونکہ میں نہیں سمجھتا اِس کیس میں اتنے درخواستگزاروں کا کوئی کام ہے۔

پھر سینئر قانون دان عابد حسن منٹو نے فُل کورٹ سے سوال کیا کہ ہماری باری کب آئے گی؟ جسٹس عُمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ آپ کا کیس تو سُپریم جوڈیشل کونسل میں درج شکایات پر کارروائی کا طریقہ کار جاننے کا ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اِس موقع پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے ہم اپنے ساتھی جج کا معاملہ دیکھیں گے جِس پر دھبہ لگایا گیا ہے اور اُس کے بعد ضروری ہوا تو آپ کو بھی سُنیں گے۔ اِس کے بعد سُپریم کورٹ نے سماعت سوموار تک مُلتوی کردی۔

آج کی تمام سماعت سے تاثر ملا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وُکلا کے لیے بدنیتی کا نُکتہ اہم ہے لیکن فُل کورٹ آرٹیکل 211 کو نظر انداز کرنے کو تیار نہیں۔