دن 12:30 بجے سپریم کورٹ کے لئے نکلا کیونکہ پانچ رکنی لارجر بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواستوں کی سماعت دن ایک بجے مقرر کر رکھی تھی۔ سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی تجویز پر صدر کے ہاتھوں اپنی برطرفی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ بلیو ایریا کا اوور ہیڈ برج اترتے ہوئے ذہن میں ججز کے نام چلنے لگے اور جسٹس شوکت عزیر صدیقی اور ان سے جڑے کرداروں سے متعلقہ کیسز کی سماعت ان ججز کے ریمارکس اور فیصلے دماغ میں ایک فلم کی طرح گھومنے لگے۔
لارجر بنچ کے سربراہ معزز جسٹس عمر عطا بندیال وزیر اعظم عمران خان کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے صادق اور امین قرار دینے والے بنچ کا حصہ رہے ہیں۔ عمران خان جس الیکشن کو جیت کر پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ پیٹشنر شوکت عزیز صدیقی نے ان انتخابات کا بھی راولپنڈی کی مشہور تقریر میں ذکر کیا کہ انہیں کہا گیا کہ آئی ایس آئی نے میرے چیف جسٹس (اسلام آباد ہائی کورٹ) کو کہا کہ ہم نے الیکشن تک نواز شریف اور اس کی بیٹی (مریم نواز) کو جیل سے باہر نہیں آنے دینا۔ آپ شوکت عزیز صدیقی کو بنچ میں مت شامل کریں۔
سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر براجمان پاکستان کے اگلے چیف جسٹس بننے والے معزز جسٹس عمر عطا بندیال اپنے ساتھی جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کرنے والی دس رکنی فل کورٹ کے بھی سربراہ تھے اور انہوں نے ہی سب سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی منیر اے ملک ایڈووکیٹ کی سربراہی میں قائم قانونی ٹیم کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو ایف بی آر بھیجنے کی تجویز دی تھی جس کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کے سامنے ایک غیر معمولی اور ڈرامائی انداز میں پیش ہو کر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن بعد ازاں جب فل کورٹ کا مختصر فیصلہ آیا تو جسٹس عمر عطا بندیال اس سات رکنی اکثریت کا حصہ تھے جنہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کو ایف بی آر کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا حالانکہ مسز سرینا عیسیٰ نہ تو پیٹیشن میں فریق تھیں اور نہ ہی کوئی سرکاری عہدہ رکھتی تھیں۔ مگر مختصر فیصلہ میں ایک پرائیویٹ شہری مسز سرینا عیسیٰ کے متعلق رپورٹ بھی سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد کو براستہ رجسٹرار سپریم کورٹ تقریباً دو ماہ میں بھجوانے کا ایف بی آر کو پابند کیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور ملک بھر کی بارز نے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلیں دائر کر رکھی ہیں لیکن مسز سرینا عیسیٰ نے ایف بی آر میں تمام پیشیاں بھی بھگت لیں، ایف بی آر نے نتیجہ نکال کر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع بھی کروا دی لیکن نہ تو تفصیلی فیصلہ آیا اور نہ ہی نظر ثانی کی اپیلیں سماعت کے لئے مقرر ہوئیں۔
بنچ کے دوسرے رکن فوجداری مقدمات کے ماہر معزز جسٹس سردار طارق مسعود ہیں جنہوں نے اپنے ساتھی ججز کی کئی دنوں کی کوششوں کے باوجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواستوں کی سماعت کے لئے آٹھ رکنی لارجر بنچ کا حصہ بننے سے انکار جاری رکھا۔ شاید زیرک جسٹس سردار طارق مسعود کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی بنچ میں موجودگی کا بالواسطہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور ان کی اپنے انکار پر ثابت قدمی لارجر بنچ کی پہلی سماعت پر عیاں بھی ہو گئی تھی جس کے بعد لارجر بنچ ٹوٹ گیا تھا اور جسٹس سردار طارق مسعود کے بنچ سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد معزز جسٹس اعجاز الاحسن کے پاس بھی لارجر بنچ سے علیحدگی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔
سنیارٹی لسٹ میں چھٹے نمبر پر موجود جسٹس سردار طارق مسعود کے اس کردار کا بخوبی احساس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی ہے تبھی وہ عموماً معتدل مزاج لیکن ثابت قدم جسٹس سردار طارق مسعود کو اپنے بنچ میں دیکھ کر اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
پانچ رکنی لارجر بنچ کے تیسرے رکن جسٹس فیصل عرب بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والی فل کورٹ کا حصہ تھے اور انہوں نے سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر بھجوانے والی اکثریت کا ساتھ دیا تھا۔
اسی طرح لارجر بنچ کے چوتھے رکن معزز جسٹس اعجاز الاحسن اپنے ساتھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواستوں کی سماعت کرنے والے آٹھ رکنی لارجر بنچ کا حصہ تھے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم کی طرف سے جسٹس اعجاز الاحسن کی بنچ میں موجودگی پر اعتراض کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن کو بنچ سے علیحدہ ہونا پڑا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نہ صرف تاحیات نااہل قرار دیا تھا بلکہ وہ احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف ٹرائل کے نگران جج بھی تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی زیر نگرانی چلنے والے ٹرائل میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی کو قید کی سزا ہوئی جس کے خلاف اپیل کی سماعت کے سلسلے میں بقول درخواستگزار سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مبینہ طور پر آئی ایس آئی کے جنرل فیض حمید نے ان سے ملاقات کی تھی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا الزام ہے کہ جنرل فیض حمید نے مبینہ طور پر ان سے درخواست کی تھی کہ الیکشن سے قبل کی گئی ان کی دو سال کی محنت کو ظائع مت کر دیجئے گا۔
معزز جسٹس اعجاز الاحسن کی زیر نگرانی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ کیس کی سماعت کرنے والی احتساب عدالت نمبر دو کے جج ارشد ملک نے بعد ازاں ن لیگ کی طرف سے جاری کی گئی ایک دھماکہ خیز وڈیو میں اعتراف کیا تھا کہ انہیں ان کی غیر اخلاقی وڈیو دکھا کر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کا فیصلہ لیا گیا۔ جج ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے برطرف کر دیا تھا لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواست کی سماعت کرنے والے لارجر بنچ کے سربراہ معزز جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ افسوس سے کہہ رہا ہوں انجینئرنگ میں ہمارا ادارہ استعمال ہو گیا اور میں جج ارشد ملک کیس کی بات کر رہا ہوں۔
لارجر بنچ کے پانچویں رکن جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کا فیصلہ کرنے والی دس رکنی فل کورٹ کا حصہ تھے اور ان کا ووٹ بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو ایف بی آر بھجوانے والی اکثریت میں شامل تھا۔ اس سے پہلے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ کا حصہ بھی تھے جس نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو آئین پاکستان اور آرمی ایکٹ میں کسی قسم کی گنجائش نہ ہوتے ہوئے بھی چھ ماہ کا قانونی جواز دیا تھا۔
ویسے تو بہت سے قانون دانوں اور سیاسی مبصرین کی نظر میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بہت برے مگر سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ایک بہت قابل جج تھے لیکن میری ناقص رائے میں دونوں ججز ایک ہی سکے کے دو رخ تھے۔ اگر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے قلم کو ٹوکے کی طرح استعمال کیا تو سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے قلم سے آلات جراحی والا باریک کام ڈالنے کا کام لیا لیکن کر دونوں سابق چیف جسٹس جمہوریت کو ذبح ہی تھے۔ دونوں سابق چیف جسٹس صاحبان کے ہاتھوں جمہوریت اتنی کمزور ہوئی کہ آج سیاستدان کھلے عام اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ جا کر آرمی چیف سے ملتے ہیں اور افواج پاکستان کے ترجمان بھی آن ریکارڈ بتا رہے ہیں کہ زبیر عمر آرمی چیف سے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کے کیسز ڈسکس کرنے کے لئے دو ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ معلوم نہیں ان اعترافی بیانات میں حلف اور آئین کی کوئی خلاف ورزی ہے یا نہیں سپریم کورٹ اس پر خاموش ہے۔
یہ سب سوچتے ہوئے 11 بج کر 50 منٹ پر سپریم کورٹ کی پارکنگ سے ملحقہ داخلی دروازے تک پہنچا تو یاد آیا کہ فیس ماسک تو گاڑی میں ہی بھول آیا ہوں۔ پھر واپس بھاگا اور کار سے فیس ماسک نکالا۔ پانچ رکنی بنچ کے لئے مخصوص کورٹ روم نمبر تین کے باہر پہنچا تو سپریم کورٹ کے سینیئر رپورٹرز راشد حبیب اور جاوید سومرو سے ملاقات ہو گئی۔ راشد حبیب نے مجھے دیکھتے ہی اٹھ کر گلے لگاتے ہوئے کہا اب تو تم سرٹیفائیڈ غدار ہو۔ میں نے بھی ہنس کر ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ راشد بھائی غدار شروع سے تھا لیکن مجھ سے کام تو لیا جا رہا تھا، غداری کا کنٹریکٹ لیٹر نہیں دیا جا رہا تھا۔ بس اب وہ مل گیا ہے تو بہت خوش ہوں۔
موبائل باہر جمع کروا کر کمرہ عدالت میں داخل ہوا تو گھڑی پر 15 بج کر 55 منٹ ہو رہے تھے۔ کورٹ روم نمبر ون کے مقابلے میں کورٹ روم نمبر تین نسبتاً چھوٹا ہے لیکن وکلا سے بھرا ہوا تھا اور سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی پہلی صف میں ہلکے نیلے رنگ کے سوٹ میں بیٹھے تھے جب کہ ان کے وکیل حامد خان دلائل دینے والے وکلا کے لئے مخصوص نشستوں پر براجمان دستاویزات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی قانونی ٹیم کے رکن عمران شفیق بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ کمرہ عدالت میں ابھی صحافی دوست نہیں آئے تھے۔ موقع دیکھ کر چلتا ہوا درخواستگزار سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے پاس چلا گیا اور سلام لے کر ان کو اپنا نام بتایا تو ان کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک آئی اور انہوں نے کہا جی جی جانتا ہوں۔
دریافت کرنے پر درخواستگزر سابق جج نے بتایا کہ اللہ سے انصاف کی امید ہے۔ تھوڑی دیر میں صحافی دوست آصف بشیر چوہدری، کراچی سے آئے ہوئے مہمان بھائی حیدر علی اور مطیع اللہ جان بھی کمرہ عدالت میں آ گئے۔ سینئیر صحافی مطیع اللہ جان کو اپنے دور میں سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی توہین عدالت کا نوٹس بھی دے چکے ہیں اور آج مطیع اللہ جان سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کیس کی سماعت کرنے کے لئے کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ دلچسپی کی بات ہے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی سے توہین عدالت کے نوٹس کا سامنا کرنے والے صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف آج کل سپریم کورٹ میں بھی توہین عدالت کا ایک کیس زیر سماعت ہے۔
کورٹ میں پانچوں ججز کی نشستوں میں کورونا ایس او پیز کے مطابق کم از کم دو دو فٹ کا فاصلہ رکھا گیا تھا اور دربان ججز کے لئے کاپی قلم اور پیٹیشن کی کاپیاں رکھنے میں مصروف تھے۔ 1 بج کر 5 منٹ پر کورٹ آ گئی کی آواز لگی تو پانچوں معزز ججز کمرہ عدالت میں آ گئے۔ لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے فیس ماسک نہیں پہن رکھا تھا اور ان کے دائیں ہاتھ ہلکے نیلے فیس ماسک میں جسٹس سردار طارق مسعود اور ان کے ساتھ اپنے دوست جسٹس عمر عطا بندیال کی تقلید کرتے ہوئے بغیر فیس ماسک پہنے جسٹس اعجاز الاحسن موجود تھے۔
لارجر بنچ کے سربراہ کے بائیں طرف ہلکا نیلا فیس ماسک پہنے جسٹس فیصل عرب موجود تھے اور ان سے اگلی نشست پر گہرے نیلے رنگ کا فیس ماسک پہنے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل بیٹھے تھے۔ حامد خان ایڈووکیٹ ججز کے آتے ہی وکلا کے لئے مخصوص روسٹرم پر آ گئے۔ لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواستگزار سابق جج کے وکیل حامد خان سے سوال پوچھا کہ آپ نے پچھلا آرڈر دیکھا تھا؟ حامد خان نے جی ہاں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے تک سماعت مؤخر کی گئی تھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کا انحصار صرف سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کیس کے فیصلہ پر ہے جو صرف بدنیتی پر مبنی قرار دے کر ناقابل سماعت کہہ کر خارج کیا گیا تھا۔ حامد خان نے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی پیٹیشن سے مخصوص پیرا گراف پڑھنا شروع کر دیا۔
لارجر بنچ میں سے جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس فیصل عرب پیٹیشن کا مطالعہ کر رہے تھے لیکن لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال پی ایل ڈی کی کتاب میں سے صفحے پلٹتے ہوئے بظاہر کچھ تلاش کر رہے تھے اور جسٹس فیصل عرب صرف حامد خان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ حامد خان نے استدعا کی کہ جب تک سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا فیصلہ موجود ہے آپ اس کی بنیاد پر دوسری سائیڈ کو نوٹس کر دیں تاکہ ان کو تیاری کا موقع مل سکے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے حامد خان سے سوال پوچھا کہ آپ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ کو چیلنج کیا ہے؟ حامد خان نے جواب دیا سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ اور صدر کے فیصلے دونوں کو چیلنج کیا ہے کیونکہ صدر سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ پر عمل کرنے کا پابند نہیں بلکہ وہ اپنا خود مختار ذہن استعمال کر کے فیصلہ کرتا ہے لیکن یہاں صدر نے خود مختاد ذہن سے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ہٹانے کا فیصلہ نہیں لیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے آبزرویشن دی کہ رپورٹ چیلنج نہیں ہو سکتی، ہاں صدر والا معاملہ چیلنج ہو سکتا ہے جس کے لئے آپ کے پاس بدنیتی اور حدود کا گراؤنڈ ہے۔ حامد خان نے دلیل دی کہ سر یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے اور آرٹیکل 199 آئین میں اسی معاملے کے لئے ہے۔ لارجر بنچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کی دلیل ہے کہ آرٹیکل 184(3) دراصل آرٹیکل 199 کے اختیارات انجوائے کر رہا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی دفعہ ہے کسی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ کو چیلنج کیا ہے تو اب آپ کو ہمیں آئینی سکیم میں سے سمجھانا پڑے گا کیونکہ آرٹیکل 211 میں سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ کے خلاف اپیل کا اختیار درج نہیں ہے۔
حامد خان نے جواب دیا کہ بالکل میں عدالت کی معاونت کروں گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جج کو ہٹانے پر آئین میں کھچڑی پکی ہوئی ہے اور جج کو عوامی سماعت کر کے ہٹایا جاتا ہے۔ حامد خان نے دوبارہ لارجر بنچ سے درخواست کی کہ وہ دوسری سائیڈ کو نوٹس کر دیں تو جسٹس عمر عطا بندیال نے مسکراتے ہوئے وفاق کے نمائندوں کے لئے مخصوص نشستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حامد خان کو احساس دلایا کہ وہ بیٹھے سن رہے ہیں، انہیں نوٹس کی ضرورت نہیں ہے۔ اور جب بلانا ہوگا تو نوٹس بھی کر دیں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ابھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے دیں کیونکہ انہوں نے بھی اپنے خلاف ریفرنس کو چیلنج کیا تھا، اس لئے حامد خان کے لئے بہتر ہوگا کہ ان کو صرف سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کیس کے فیصلے پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ ان کے پاس دلائل دینے کے لئے دو فیصلوں کی دستاویزات ہوں گی۔ آرڈر لکھواتے ہوئے لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت ایک مہینے کے لئے ملتوی کرنے کا اشارہ دیا تو حامد خان نے درخواست کی کہ جلد سے جلد کی تاریخ دی جائے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے تفصیلی فیصلے پر اہم اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ابھی وہ فیصلہ بھی لکھا جا رہا ہے اور لارجر بنچ کے ججز نے بھی کوئٹہ اور لاہور میں سماعتوں کے لئے جانا ہوگا تو یہ سب ایک مہینے تک دوبارہ دستیاب ہوں گے۔ یوں مختصر سماعت کے بعد لارجر بنچ نے سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کر دی۔
کمرہ عدالت سے باہر نکلنے لگا تو دیکھا اسلام آباد ہائی کورٹ کور کرنے والے صحافیوں کی بڑی تعداد بشمول اسد ملک، سہیل رشید، احتشام کیانی اور ثاقب بشیر کی صورت میں موجود تھی۔ ہنستے ہوئے ملک اسد سے پوچھا اپنا اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج بحال کروانے آئے ہیں؟ ملک اسد نے ہنستے ہوئے جواب دیا، آپ سپریم کورٹ والوں سے امید کم ہی ہوتی ہے۔
کمرہ عدالت سے باہر نکلا تو سوچ رہا تھا کہ جیسے تاریخ میں پہلی بار کسی جج نے سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ کو چیلنج کیا، ویسے ہی یہ کیس اس لئے بھی منفرد ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے کسی جج کو سنے بغیر ہٹانے کی سفارش صدر کو بھجوا دی تھی لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے سنگین الزامات پر انکوائری کا حکم دینے کی زحمت نہیں کی تھی۔
میں ذاتی طور پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کنڈکٹ پر شدید تحفظات رکھتا ہوں کیونکہ وہ کمرہ عدالت میں مقدس شخصیات کا نام لے کر رونے لگ جاتے تھے جو کسی بھی جج کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی مذہبی وابستگی کے زیر اثر کسی پیٹیشنر کا کیس سنے۔ اگر ایک جج اپنی مذہبی وابستگی کی بنیاد پر کیس سنے گا تو وہ غیر مسلم کو حق پر ہونے کے باوجود بھی انصاف نہیں دے گا اور آئین پاکستان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں برابر کے شہری ہیں اور برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔
بہرحال اب سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی خود انصاف کے متقاضی ہیں تو دیکھتے ہیں سابق منصف کو موجودہ منصف کیسا انصاف دیتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے صدارتی ریفرنس کو حامد خان نے بھی چیلنج کیا تھا جب کہ حامد خان سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بھی صدارتی ریفرنس کے خلاف وکیل تھے اور اب وہ سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بھی وکیل ہیں۔ یہ تو مؤرخ ہی لکھے گا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور شوکت عزیز صدیقی میں سے کون تاریخ کی درست طرف کھڑا تھا۔
مجھے اس موقع پر جیو نیوز کے مانیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ حیدر علی بھائی کا ایک جملہ ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ نواسہ رسول امام حسینؑ کے کربلا میں شہید ہونے کے صدیوں بعد مؤرخ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا تھا ورنہ وقت کے جابر یزید کی حکمرانی میں کسی مؤرخ نے ایسا لکھنے کی جراأ نہیں کی تھی۔ دعا ہے اللہ ہم سب کو بھی جب اٹھائے تو ہم تاریخ کی درست طرف حق کے ساتھ کھڑے ہوں۔ آمین۔