سابق جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو ریٹائرمنٹ سے قبل کیس کی سماعت کرنے کی درخواست کردی۔
تفصیلات کے مطابق سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کی سماعت کل سپریم کورٹ میں ختم ہوئی تو بنچ نے آگے کسی تاریخ کو مقرر کرنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی جس وجہ سے آج کیس سماعت کے لیے مقرر نہیں تھا۔ تاہم اب شوکت عزیز صدیقی صاحب نے 30 جون کو ریٹائرمنٹ کے پیش نظر 7 جون سماعت کے لیے مقرر کرنے کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ وہ 30 جون کو ریٹائرڈ ہو جائیں گے اس لئے ان کے کیس کی ہنگامی بنیادوں پر سماعت کی جائے اور 7 جون کو ان کا کیس سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کیس کی سماعت کی گئی تھی۔سپریم کورٹ میں سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست پر جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ سماعت کے دوران وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مؤکل نے عدلیہ کے حوالے سے بہت منفی تقریر کی، جس عدلیہ کو برا کہا اب اسی میں واپسی کے لیے کوشش کر رہے ہیں، ممکن ہے اپنے خلاف ریفرنسز کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی پریشان ہوں۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تمام ججز ضمیر کے قیدی ہیں اور انصاف فراہم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ججز فیصلوں میں ایک دوسرے سے اختلاف ضرور کرتے ہیں، عدلیہ نے شوکت عزیز صدیقی کے حقوق کا تحفظ کیا تھا، جواب میں دو ماہ بعد شوکت عزیز صدیقی نے عدلیہ کے ساتھ جو کیا وہ بھی دیکھیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج ہوسکتی ہے؟ جس پر وکیل حامد خان نے کہا ماضی میں عدالت عظمیٰ، سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف اپیلیں سنتی رہی ہے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ماضی کے مقدمات میں جوڈیشل کونسل کی حتمی سفارش نہیں آئی تھی، شوکت عزیز صدیقی کے خلاف کونسل کی سفارش پر عمل بھی ہوچکا ہے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ جج کو صرف ایک انتظامی انکوائری کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہمارا کام آئین میں ترمیم کرنا نہیں اس کی تشریح کرنا ہے، آپ چاہیں تو پارلیمان سے آئین میں ترمیم کروا لیں، ہمارا کام آئین میں گنجائش پیدا کرنا نہیں ہے۔ جج کی برطرفی کی سفارش کوئی اور نہیں سینئر ججز ہی کرتے ہیں، پہلے آئین کی دفعہ 211 کی رکاوٹ عبور کرنی ہوگی۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت ایک دن کے لیے ملتوی کردی گئی تھی تاہم آج کیس سماعت کے لیے مقرر نہیں تھا۔