خیبر پختونخوا اسمبلی: جمعہ کی سرکاری چھٹی، شان صحابہ ؓو اہل بیتؓ میں گستاخی پر سزا موت کی قراردادیں منظور

خیبر پختونخوا اسمبلی: جمعہ کی سرکاری چھٹی، شان صحابہ ؓو اہل بیتؓ میں گستاخی پر سزا موت کی قراردادیں منظور
خیبر پختونخوا اسمبلی میں جمعہ کی سرکاری چھٹی بحال کرنے، صحابہ کرامؓ اوراہل بیتؓ کی توہین روکنے اور شان صحابہ ؓو اہل بیتؓ میں گستاخی پر سزا موت یا عمر قید کی سزادینے سمیت متعدد قراردادوں کی منظوری دیدی ہے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے یک زباں ہوکر موجودہ اور سابقہ ممبران پارلیمان کی طرز پر اپنے لیے تاحیات مراعات اور بلیو پاسپورٹ کے اجرا کا مطالبہ کرتے ہوئے جمعہ کی سرکاری چھٹی بحال کرنے ، صحابہ کرامؓ اوراہل بیتؓ کی توہین روکنے اور شان صحابہ ؓو اہل بیتؓ میں گستاخی پر سزا موت یا عمر قید کی سزادینے  اور سرائیکی زبان کو پارلیمانی زبان کا درجہ دینے سمیت متعدد قراردادوں کی منظوری دیدی ہے۔

گزشتہ روز صوبائی اسمبلی اجلاس میں جماعت اسلامی کی رکن حمیرا خاتون اور سراج الدین نے مشترکہ قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور اسلامی تعلیمات کی رو سے جمعتہ المبارک کی بڑی اہمیت ہے اس دن کو دوسرے ایام کا سردار کہا گیا ہے، قرآن پاک میں بھی جمعہ کے دن ظہر کی اذان کے ساتھ ہی کاروبار بند کرکے نماز کے لئے مسجد جانے کا حکم دیا گیا ہے۔

برصغیر اور پاکستان میں اب تک  توہین کے قوانین کا مختصر جائزہ

توہینِ مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ برصغیر میں برطانوی راج کے زمانے میں 1860 میں بنائے گئے تھے اور پھر 1927 میں ان میں اضافہ کیا گیا تھا۔ 1980 اور 1986 کے درمیان جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے دور میں متعدد شقیں ڈالی گئیں۔ جنرل ضیا ان قوانین کو اسلام سے مزید مطابقت دینا چاہتے تھے اور احمدیہ برادری (جسے 1973 میں غیر مسلم قرار دیا جا چکا تھا) کو ملک کی مسلمان اکثریت سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے۔ برطانوی راج نے جو قوانین بنائے ان میں کسی مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا، کسی قبرستان میں بغیر اجازت کے داخل ہونا، کسی کے مذہبی عقیدے کی توہین کرنا، یا سوچ سمجھ کر کسی کی عبادت گاہ یا عبادت کی کسی چیز کی توہین کرنا جرم قرار پائے تھے۔ ان قوانین میں زیادہ سے زیادہ سزا دس سال قید اور جرمانہ تھی۔ 1980 کی دہائی میں توہینِ مذہب کے قوانین میں اضافہ کیا گیا۔ بی بی سی رپورٹ کے مطابق 1980 میں اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیانات کو بھی جرم قرار دے دیا گیا تھا جس میں تین سال قید کی سزا مقرر کی گئی۔1982 میں ایک اور شق شامل کی گئی جس میں جان بوجھ کر قرآن کی بےحرمتی کی سزا پھانسی رکھ دی گئی۔ 1986 میں پیغمبرِ اسلام کی توہین کی سزا بھی موت یا عمر قید رکھ دی گئی۔

انسانی حقوق کمیشن کیا کہتا ہے

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کئی سالوں سے توہینِ مذہب کے کیسز پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کیسز میں زیادہ تر مسلمانوں کو ہی پکڑا جاتا ہے۔نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے مطابق 1987 سے لے کر اب تک 633 مسلمانوں، 494 احمدیوں، 187 عیسائیوں، اور 21 ہندؤوں کے خلاف ان قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر توہینِ قرآن کے مقدمات ہیں اور توہینِ رسالت کے مقدمات قدرے کم ہیں۔