پیٹرول کی قیمت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھائی گئی ہے، عوام کے ساتھ ایک اور دھوکہ

پیٹرول کی قیمت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھائی گئی ہے، عوام کے ساتھ ایک اور دھوکہ
جون 2013 میں سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار مُحّمد چوہدری نے پیٹرول پر بھاری ٹیکسوں اور قیمتوں میں اضافے کا سوموٹو نوٹس لیا۔ افتخار چوہدری نے اپنی سربراہی میں جسٹس اعجاز احمد اور جسٹس گلزار احمد (موجودہ چیف جسٹس) پر مشتمل بینچ کے سامنے کیس کی سماعت کر کے حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات پر عائد نئے ٹیکس کالعدم قرار دیتے ہوئے عدالتی حکم میں لکھا کہ کوئی بھی حکومت پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر عوام پر اضافی ٹیکس نہیں لگا سکتی۔

آج تحریک انصاف کی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں میں 106 فیصد تک اضافہ کر کے عوام کو ریلیف نہیں دیا۔ اب جبکہ 2013 میں ایسے اضافہ کو کالعدم قرار دینے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے رکن جسٹس گلزار احمد چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر براجمان ہیں دیکھتے ہیں وہ اپنے 2013 کے فیصلہ پر عملدرآمد یقینی بناتے ہیں یا نہیں۔

دلچسپ بات ہے کہ ماضی کی چوروں اور لٹیروں کی حکومتیں اوگرا کا تجویز کردہ اضافہ مسترد کر کے ایک حد تک ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھاتی تھیں تاکہ عوام پر ان کی استطاعت کے مطابق ہی بوجھ منتقل کریں۔ لیکن ریاستِ مدینہ اور خُلفا راشدین کی مثالیں دینے والے وزیراعظم عمران خان کو اوگرا نے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں 15 سے 27 فیصد تک گراوٹ کے بعد ڈیزل کی قیمت میں 9.5 فیصد کمی کر کے 115 روپے فی لیٹر کرنے کی درخواست کی لیکن وزیراعظم عمران خان نے ڈیزل پر عائد پیٹرولیم لیوی کو 18 روپے سے بڑھا کر 25 روپے کر دی اور یوں 115 روپے فی لیٹر والے ڈیزل کی قیمت بڑھ کر 123 روپے فی لیٹر ہو گئی۔

اسی طرح اوگرا نے وزیراعظم عمران خان کو پیٹرول کی قیمت میں قریباً 10 فیصد تک کمی لا کر عوام سے 106 روپے فی لیٹر وصول کرنے کی درخواست کی لیکن وزیراعظم عمران خان نے یہاں بھی غریب عوام کو پورا ریلیف دینے سے اِنکار کرتے ہوئے پیٹرول پر عائد پیٹرولیم لیوی کو 15 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر قریباً 20 روپے فی لیٹر کر دیا جس سے عام عوام اب 106 روپے لیٹر والا پیٹرول تقریباً 112 روپے میں خریدیں گے۔ یعنی کے بظاہر پیٹرول کی قیمت میں کمی کا جھانسہ دے کر حکومت نے عوام کی جیب پر تقریباً 40 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا ہے۔

قاریین کی معلومات کے لئے بتا دوں کہ صرف ڈیزل پر ریاستِ مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے کی دعوے دار کپتان سرکار 45 روپے فی لیٹر ٹیکس عوام کی جیب سے نکال رہی ہے۔ ڈیزل کی قیمت اِس لئے بھی اہم ہے کہ تمام ٹرک جو ملک بھر میں آٹا، چینی، سبزیاں، دالیں، پھل اور دیگر اشیا کی ترسیل ممکن بناتے ہیں وہ ڈیزل استعمال کرتے ہیں اور اگر حکومت ڈیزل کی قیمت میں مناسب کمی کردے تو مہنگائی کی جاری لہر کی کمر فوری توڑی جاسکتی ہے کیونکہ تاجروں کی اشیا منگوانے کی لاگت میں ڈرامائی کمی واقع ہوگی۔ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت ایسا نہیں کرتی تو وزیراعظم عمران خان کو مہنگائی کا ذمہ دار مافیا کوقرار دیتے ہوئے شاید اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

عوام کے آئینی اور بُنیادی حقوق کی ضامن سُپریم کورٹ کی بات کی جائے تو صرف چیف جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری ہی نہیں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی جولائی 2018 میں پیٹرول کی قیمت بھاری ٹیکس کے ذریعے بڑھانے پر سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن کے ساتھ سماعت کر کے حکومت کو پیٹرول کی قیمت میں تین سے چھ روپے کمی کا حکم دیا تھا۔

اِس سے قبل فروری 2015 اور جنوری 2018 میں “ادارے” اپنے "پراکسی پیٹشنرز" شاہد اورکزئی اور مولوی اقبال حیدر کے ذریعے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کروا چکے ہیں لیکن آج کیونکہ “ادارہ” اور حکومت ایک صفحہ پر ہیں۔ اِس لیے بقول وزیراعظم عمران خان، شیخ رشید اور فردوس عاشق اعوان پی ٹی آئی حکومت کے ہر قدم کو افواجِ پاکستان اور آرمی چیف جنرل باجوہ جیسی سپورٹ دے رہے ہیں وہ ماضی کی کسی پاکستانی حکومت کو مُیسر نہیں تھی۔”

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بیرونِ ملک بیٹھے ہیں مریم نواز نے کسی ممکنہ ڈیل کے پیشِ نظر چپ سادھ رکھی ہے اور بلاول بھٹو سندھ سے باہر کوئی عوامی تحریک چلانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ حکومت کو دباؤ میں لانے والی اپوزیشن کا کردار ایک مردہ گھوڑے سے زیادہ کچھ نہیں۔ منتخب نمائندوں نے مشکل وقت میں عوام کو لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ عوام کو شاید خود ہی “ساڈا حق ایتھے رکھ” کی آواز لگاتے ہوئے باہر نکلنا ہوگا ورنہ بہت دیر ہو جائے گی کیونکہ ریاستِ مدینہ نے آئی ایم ایف سے وعدہ کردہ 5200 ارب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کے لئے ٹیکس کی شرح بڑھا کر مہنگائی میں اتنا اضافہ کر دیا ہے۔

سوچیے اگلے مالی سال تو 6800 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کا وعدہ آئی ایم ایف سے نئے پاکستان کے دعوے داروں نے کر رکھا اور اُس کو حاصل کرنے کے لئے عوام کو مہنگائی کی جس بھٹی میں جھونکا جائے گا اُس کی تاب لانے کی سکت شاید موجودہ مالی سال ہی ختم کر دے۔ عوام اُٹھ کھڑے ہوئے تو پاکستان میں احتجاج سے پیدا ہونے والے عدم استحکام کی ذمہ دار عدالت اور پارلیمنٹ دونوں ہوں گے کیونکہ ریاست کے اِن دونوں ستونوں میں نہ تو عوام کی دادرسی ہو رہی اور نہ ہی کوئی آواز اُٹھ رہی ہے۔

میڈیا نامی چوتھے ریاستی ستون کو مُقتدر حلقے جُھکا چُکے ہیں جبکہ ایگزیکٹو پہلے ہی اُن کی خوشنودی کی متمنی ہے۔ ایسے میں عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ صرف سڑکیں ہی بچتی ہیں۔