ضلع قصور کے قصبہ پھول نگر سے ایک تصویر سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی جس میں گلے میں پڑی رسی سے لٹکتی لاش تھی۔ خودکشی کے شور میں قتل کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ پتہ چلا یہ تصویر تو سعید گل کی ہے۔ اخبار فروش سعید گل محلہ رسول نگر عید گاہ روڈ کا رہائشی تھا۔
سعید گل گذشتہ تین عشروں سے شہر اور قرب و جوار میں اخبار فروشی سے شعبے سے وابستہ تھا۔ ہر صبح گلی گلی نگر نگر اخبار دینے جاتا اور اس سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ منگل صبح حسب سابق اپنے کام پر گیا اور گھر واپس نہ لوٹا، جس سے اہلخانہ اور قریبی عزیز و اقارب نے تلاش شروع کر دی۔ تاہم اگلے روز شیلر کے مشینری روم میں سعید گل کی رسی سے لٹکتی لاش ملی۔
لاش ملتے ہی گھر میں صف ماتم بچھ گئی، سعید گل چھے بچوں کو یتیمی کے سہارے چھوڑ گیا۔ خودکشی اور قتل کی آوازیں اٹھنے لگیں۔ پولیس اور فرانزک ٹیمیں موقع پر پہنچیں، لاش کو قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لئے بھجوا دیا گیا اور شواہد اکٹھے کرنے شروع کر دیے گے۔
پوسٹ مارٹم کے بعد اخبار فروش سعید گل کو سپرد خاک کر دیا گیا۔
سعید گل اخبار فروخت کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا، لاک ڈاؤن کی وجہ سے مارکیٹ اور تجارتی مراکز بند ہونے کی وجہ سے اس کا کاروبار تقریباً بند تھا اور سعید گل پریشانی کا شکار تھا۔ صحافتی حلقوں، تنظیمیوں اور اخبار فروش یونینز کی جانب سے مذمتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ محنت کش کی موت چیخ چیخ کر زندہ انسانوں سے التجا کر رہی ہے کہ جس طرح تم لوگ مردہ لوگوں کو کندھا دینا افضل سمجھتے ہو اگر اسی طرح کسی کی زندگی میں اس کا سہارہ بننے کے لئے دوڑ دھوپ شروع کر دو تو مسائل کی چکی میں پستے بہت سے محنت کشوں سفید پوشوں اور ضرورت مندوں کی زندگیاں آسان ہو سکتی ہیں۔ ڈھنگ سے زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ لفظ تعزیت اور مذمت پیٹ نہیں بھرتے۔
اخبار مالکان کے لئے براہ راست کام کرنے والے ایک ایک پیسہ اکھٹا کر کے دیہاتوں تک تجزیہ نگاروں کے الفاظ نامہ نگاروں کی خبریں اور بڑی بڑی کمپنیوں کے اشتہارات قارئین تک پہنچاتے ہیں، اخبار کا بل مالکان تک پہنچاتے ہیں مگر ان کی لاش کی خبر تک کے لئے جگہ نہیں ملتی۔ پھر کیا ہوا محنت کش کی موت سے کیا فرق پڑے گا۔ آنکھ اشکبار، ہاتھ لڑکھڑاتے ہوئے دعا ہے کہ اللہ محنت کش سعید گل کے لئے اگلی منزل آسان فرمائے۔ یتیم بچوں اور بیوہ کے لئے اپنے خزانوں سے مدد فرمائے۔ امین