پاکستان آرمی کے ذیلی ادارہ مجاہد فورس کا جاری کردہ ایک اشتہار دسمبر 2021ء کے اختتام پر اخبارات میں ہوا. جس میں صوبہ پنجاب کے چھ اضلاع کے رہائشی مرد حضرات سے فورس میں بھرتی ہونے کے لئے درخواستیں طلب کی گئیں. مذکورہ اشتہار ایک عمومی نوعیت کا اشتہار تھا مگر اس اشتہار میں سینیٹری ورکرز کی بھرتی کے لئے بھی درخواستیں طلب کی گئیں اور سینیٹری ورکر کے آگے لفظ کرسچین لکھا گیا یا یوں کہا جائے کہ سینٹری ورکر کی آسامی صرف مسیحی مرد افراد کے لئے ہی مختص تھی. یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سرکاری محکموں یا نجی اداروں میں سینیٹری ورکر کی جاب کے لئے کسی خاص مذہب سے تعلق رکھنا ضروری نہیں، جیسا کہ پنجاب کے اضلاع مثلاً ڈیرہ غازی خان، لیہ، راجن پور وغیرہ جہاں مذہبی اقلیتوں کے شہریوں کی تعداد انتہائی کم ہے، وہاں سینیٹری ورکرز کی جابز پر مسلمان افراد ہی کام کر رہے ہیں۔
دوسری جانب جہاں یہ کہا جاتا ہے کہ ہر کام میں عظمت ہے، مگر ایسے کچھ کام بھی ہیں جن میں "عظمت" نہیں، اور اسکا تعلق کام کی نوعیت یا کرنے والے کے مذہبی عقائد سے نہیں بلکہ اُن رویوں یا منفی تاثرات سے ہے جو معاشرے نے ان کاموں کے ساتھ جوڑ دیئے ہیں۔ اس میں دوسرا قابلِ اعتراض نقطہ یہ ہے کہ جن اضلاع میں مسیحی اور مسلمان سینیٹری ورکر بھرتی کئے جاتے ہیں تو وہاں عموماً مسلمان ورکرز کو افسران کے بنگلوں یا دفاتر کی صفائی کرنے کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے جبکہ مسیحی ورکرز کو سڑک پر جھاڑو لگانے اور گٹر صاف کرنے پر لگایا جاتا ہے۔ مذکورہ اشتہار میں یہ بھی واضح نہیں کیا گیا تھا کہ آیا دیگر نوکریوں پر مسیحی افراد اپنی درخواست بھیج سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ اشتہار سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور اس حوالے سے ایک سنجیدہ بحث مباحثہ شروع ہوا کہ کیا پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے صرف سینٹری ورکر جیسی "توہین آمیز" ملازمتیں ہی رہ گئی ہیں۔ اور اقلیتوں کے لئے مختص جاب کوٹہ پر بھرتیوں کا عمل کب شروع کیا جائے گا اور کیا صرف گریڈ چار سے نچلے گریڈز کے لئے ہی اقلیتوں کو بھرتی کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
مذہبی اقلیتوں کے لئے ملازمتوں کے حصول کی صورتحال پر جاری بحث کو مزید تقویت اس وقت ملی جب سپریم کورٹ کے حکم سے قائم کئے گئے "ایک رُکنی کمیشن" کے چیئرمین ڈاکٹر شعیب سڈل کی طرف سے صوبائی حکومتوں، حکومت گلگت بلتستان اور وفاقی دارالخلافہ کے تمام سرکاری دفاتر کو، مورخہ 30 دسمبر 2021ء کو، بذریعہ مراسلہ ہدایت کی گئی کہ وہ فوری طور پر ملک بھر میں ہر قسم کی ملازمتوں پر مذہبی یا عقیدے کی بنیاد پر امتیاز ختم کریں (ایک رکنی کمیشن کی طرف سے بھیجا گیا مراسلہ ایک دفتری کارروائی تو ضرور تھا مگر اس مراسلہ کی کوئی قانونی اہمیت نہیں، کیونکہ ایک رکنی کمیشن کسی بھی طرح کے دفتری امور کو تبدیل کرنے کا مینڈیٹ نہیں رکھتا) اور ایسے اشتہارات جاری نہ کریں جو شہریوں میں مذہبی تقسیم کو منفی انداز میں اجاگر کرے۔ وزارت انسانی حقوق کے ایک عہدیدار نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، بتایا کہ سینیٹری ورکرز کی بھرتیوں کے لیے اشتہارات میں عیسائی برادری کے حوالے سے ایک رکنی کمیشن نے اپنے مراسلہ میں لکھا ہے کہ بارہا یاددہانیوں کے باوجود اس طرح کے اشتہارات سامنے آرہے ہیں۔
ڈاکٹر شعیب سڈل کی طرف سے بھیجے گئے مراسلے میں کہا گیا کہ اس طرح کے اشتہارات آئین کے آرٹیکل 18، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہیں. جس میں تمام شہریوں کو ملازمتوں، پیشوں میں برابری، تجارت کی آزادی اور مذہب یا جنس کی بنیاد پر بھرتیوں سے منع کیا گیا ہے. خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اشتہارات کو فوری طور پر واپس لے لیا جائے، جب کہ تمام ڈویژنز، محکموں، خودمختار اداروں اور منسلکہ محکموں میں اس ضمن میں سخت ہدایات جاری کی جائیں تاکہ ملازمتوں میں مذہبی بنیاد پر امتیاز کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوسکے. خط میں کہا گیا ہے کہ غیر مسلموں کو سینیٹری ورکرز کی ملازمت تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ خط میں مزید ہدایت کی گئی ہے کہ تمام غیرتربیت یافتہ اقلیتی ملازمین کو سندھ میں 25 ہزار روپے ماہانہ اور دیگر پاکستانی علاقوں میں 20 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ادا کی جائے اس کے علاوہ ای او بی آئی کے ساتھ رجسٹریشن، قانون کے مطابق چھٹیاں اور طبی سہولیات فراہم کی جائیں. یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ صوبہ پنجاب میں سینیٹری ورکرز کو ماسوائے تنخواہ کے کوئی دیگر الاؤنس، اوورٹائم یا بونس وغیرہ نہیں دیا جاتا۔ اگر دورانِ کام کسی ورکر کی خدانخواستہ موت واقع ہو جائے تو اسکی فیملی کو کسی قسم کا کوئی معاوضہ یا کوئی خصوصی مالی امداد وغیرہ بھی نہیں دی جاتی ہے۔
گو کہ مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے قائم کردہ ایک رُکنی کمیشن گزشتہ تین سال سے اقلیتوں کے حقوق پر عملدرآمد کے لئے مختلف اقدامات کرنے کی سفارشات کرتا رہا ہے۔ اور کمیشن اکثر اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ اقلیتوں کے لئے مختص جاب کوٹہ پر بھرتیوں کے عمل کو مکمل کیا جائے تاکہ اقلیتی افراد پر ملازمتوں کے دروازے کھولے جائیں، مگر یہ عمل اتنا سادہ نہیں ہے جیسا کہ اسے بیان کیا جاتا ہے۔ پاکستان بشمول متحدہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے لئے جاب کوٹہ سسٹم کی اپنی ایک تاریخ ہے جسے سمجھے بغیر آگے بڑھنا کافی مشکل ہے۔ جاب کوٹہ کے حوالے سے مذہبی اقلیتوں اور غالب اکثریت دونوں میں منفی اور مثبت آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ گروہوں کا خیال ہے کہ جاب کوٹہ ختم کر کے اوپن میرٹ کے اصول کو اپنایا جائے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ مذہبی اقلیتوں میں تعلیم اور خواندگی کی کمی کی وجہ سے اوپن میرٹ پر انہیں نوکریاں ملنا ناممکن ہو جائے گا لہذا کوٹہ کے ذریعے یہ امید ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے غریب شہری نوکریاں حاصل کر سکتے ہیں۔
اقلیتوں کے لئے مختص جاب کوٹہ کی تاریخ:
ادارہ برائے سماجی انصاف کی جانب سے، ستمبر 2020ء میں، جاری کردہ ایک پوزیشن پیپر میں بتایا گیا ہے کہ متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سنہ1901ء میں ریاست کوہلہ پور میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم رائج کیا گیا تھا. جس کا مقصد نچلے طبقے کی غربت کو کم کرنا اور ریاست کے نظام میں انکی شمولیت کو یقینی بنانا تھا۔ 1902ء میں پہلا سرکاری حکم نامہ جاری ہوا جس کے مطابق ریاست کوہلہ پور میں غرباء اور پسماندہ افراد کے لئے 50 فیصد کوٹہ رکھا گیا۔ صوبہ مدراس میں 1921ء میں مسلمانوں، مقامی مسیحیوں اور شیڈیولڈ کاسٹ وغیرہ کے لئے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ مختص کیا گیا تھا۔ 1932ء میں ڈاکٹر امبیدکار نے پسماندہ افراد کے لئے اصطلاح (شودر) کی بجائے "شیڈیولڈ کاسٹ" کے حق میں رائے دی جو بعد میں بھارتی آئین کا حصہ بنی۔ بھارت میں اقلیتوں کے لئے جاب کوٹہ 15فیصد ہے، بنگلہ دیش نے 1972ء میں اقلیتوں کے لئے جاب کوٹہ مختص کیا تھا جو کہ 56 فیصد تھا ( مگر اس کوٹہ میں بنگلہ دیش کی آزادی میں شہید ہونے والے افراد کے اہل خانہ کے لئے 50فیصد کوٹہ مختص کیا گیا تھا، جبکہ 6 فیصد کوٹہ دیگر اقلیتوں کے لئے مختص کیا گیا تھا) جبکہ پاکستان میں 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 36 میں اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ، انکی وفاق اور صوبائی سطح پر ملازمتوں میں نمائندگی کو ممکن و لازم بنانے کی ضمانت دی گئی. تاہم اس آئینی ضمانت پر باضابطہ عملدرآمد سنہ 2009ء میں کیا گیا۔ جب اُس وقت کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز کلیمنٹ بھٹی کی کاوش سے وفاقی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے تحت اقلیتی افراد کی سرکاری اداروں میں ملازمت کے لئے 5 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا اور اہلیت کے حامل امیدوار کی عدم موجودگی کی صورت میں آسامی کو اُس وقت تک خالی تصور کرنے کی شرط رکھی گئی جب تک کہ اہل اقلیتی امیدوار کی تقرری عمل میں نہ آ جائے۔ سنہ 2010ء میں صوبائی حکومتوں نے اقلیتی افراد کے لئے سرکاری آسامیوں میں 3 سے 5 فیصد ملازمت کوٹے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔
اقلیتوں کے لئے ملازمت کوٹہ پر بھرتی کی صورتحال:
وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ شماریاتی بلیٹن کے مطابق سال:
2010-11ء وفاقی سرکاری اداروں میں کل آسامیاں 449,964 - تعینات اقلیتی افراد 11,521 (2.6 فیصد).
2013-14ء وفاقی سرکاری اداروں میں کل آسامیاں 444,521 - تعینات اقلیتی افراد 10,086 (2.3 فیصد).
2017-18ء وفاقی سرکاری اداروں میں کل آسامیاں 581,240 تعینات اقلیتی افراد 16,711 (2.8 فیصد).
مندرجہ بالا اعدادوشمار جہاں 5 فیصد کوٹہ پر عمل نہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں وہیں پر یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان آسامیوں پر تعینات 95 فیصد اقلیتی افراد گریڈ 1 سے 8 تک کے ملازمین ہیں. سال 2017-18ء کے اعدادوشمار کے مطابق 16 ہزار سے زائد اقلیتی افراد میں سے 1286 افراد، گریڈ 9 سے 16 جبکہ صرف 260 افراد گریڈ 17 سے 22 میں ملازمت کر رہے تھے۔
اسی طرح آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے 40 سرکاری اداروں میں کل آسامیوں کی تعداد 552,556 ہے جبکہ 5 فیصد کوٹہ کے حساب سے اقلیتی افراد کے لئے آسامیوں کی تعداد 26,521 بنتی ہے. جبکہ سال 2021ء میں ان آسامیوں پر تعینات افراد کی تعداد 7,324 (28 فیصد) ہے جبکہ 19,197 آسامیاں ابھی بھی خالی ہیں۔
ستمبر 2021ء میں، اقلیتوں کے تحفظ سے متعلقہ کیس کی سماعت کے دوران، سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس کو ایک رُکنی کمیشن کے چئیرمین نے بتایا کہ ملک میں اقلیتوں کے لئے مختص جاب کوٹہ کی مد میں تقریباً 30 ہزار آسامیاں خالی پڑی ہیں، تو چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایک ایسے وقت میں جب بیروزگاری کی شرح بلند ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں آسامیوں کو خالی رکھا جائے اور ان پر بھرتی کے عمل میں سستی برتی جائے. سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں، اقلیتی افراد کے جاب کوٹہ پر بھرتی کا عمل مکمل کریں اور اس حوالے سے عدالت کو پراگریس رپورٹ بھی جمع کرائی جائے. سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ملازمتوں کے اشتہارات اخبارات میں دئیے گئے مگر سال 2021ء کے اختتام تک کوئی بھرتی عمل میں نہ لائی گئی، جسکی بنیادی وجہ اقلیتوں کے لئے مختص جاب کوٹہ پر بھرتی کے عمل کی جانچ پڑتال کے لئے کسی واضح سسٹم کا نہ ہونا ہے۔
اقلیتوں کے لئے مختص "خالی آسامیاں" آخر وجہ کیا ہے:
"میرا نام ہی میری درخواست مسترد ہونے کے لئے کافی ہے" یوحنا آباد کی ایک مسیحی خاتون کا سیدھا سا جواب تھا. جب ان سے مزید معلومات حاصل کی گئیں تو معلوم ہوا کہ سینکڑوں مسیحی نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ انکے مسیحی ناموں کی وجہ سے انکی نوکری کی درخواستوں کو پہلے ہی مسترد کر دیا جاتا ہے. جب اس طرح کی معلومات کی حکومتِ پنجاب کے 6 مختلف محکموں سے تصدیق یا تردید کرنے کی کوشش کی گئی تو وہاں موجود کسی بھی سطح کے افسر نے کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیا۔
پاکستان پارٹنرشپ انیشیٹو نامی ایک سماجی تنظیم کے منیجر ایڈووکیسی عاشر گِل سے جب یہی سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا "مسیحی نوجوانوں میں ایک طرف اعتماد کی کمی ہے تو دوسری طرف وہ گریڈ 1 سے 4 (یعنی سینیٹری ورکر) کی جاب پر اپلائی کرنا گوارا ہی نہیں کرتے. کیونکہ اس لیول کی جابز کو مذہبی اقلیتوں کے ساتھ موسوم کر دیا گیا ہے. جہاں تک اعلیٰ عہدوں پر جابز کے حصول کی بات ہے تو بہت کم مسیحی نوجوان ایسے ہیں جو وفاقی یا صوبائی پبلک سروس کمیشن میں امتحان دینے کا جذبہ اور صلاحیت رکھتے ہیں"۔
حالات میں بہتری کی کیا امید ہے:
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر فار سوشل جسٹس کے ڈائریکٹر اور پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی ایک موثر آواز پیٹر جیکب نے کہا "اقلیتوں کے لئے 5 فیصد ملازمت کوٹہ کا اجراء ایک قابلِ تحسین اقدام ہے مگر اس پر عمل درآمد اتنا سہل نہیں جتنا سمجھا گیا۔ 5 فیصد کوٹہ کے باوجود 70 فیصد آسامیوں کا خالی رہنا اور اقلیتی افراد کی عدم تقرری دو باتوں کی نشاندہی کرتی ہے. اّول یہ کہ قومی دھارے میں اقلیتوں کو برابر شریک کرنا، عوام الناس خاص طور پر اربابِ اختیار کی آمادگی سے مشروط ہے. دوسرا فیصلہ ساز افراد سب شہریوں کے بلاامتیاز رنگ و نسل و مذہب اور بالخصوص اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ و احترام کو یقینی بنائیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ملازمت کوٹہ کے لئے ایک واضح پالیسی مرتب کر کے باقاعدہ قانون سازی کی جائے صرف نوٹیفکیشن کے سہارے کئے گئے ایسے اقدامات کی کوئی اہمیت نہ ہو گی. ملازمت کوٹہ کے بہتر نفاذ، نگرانی اور شکایات کے ازالہ کے لئے انتظامی ادارہ یا ملازمت کوٹہ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ عمل درآمد کی نگرانی کی جاسکے"ُ۔
انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے لئے جاب کوٹہ پر اگر مکمل عمل کیا جاتا ہے تو یہ بڑی کامیابی ہو گی اور حکومت یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ اس نے ہزاروں شہریوں کو نوکریاں دی ہیں. اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری محکموں اور نجی اداروں میں مسیحی ملازمین کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے سے بھی بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔