چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کی 30 ہزار خالی نشستوں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ا متعلقہ اتھارٹیز اس اہم معاملے پر جلد اقدامات کرکے رپورٹ پیش کریں۔
چیف جسٹس نے یہ ریمارکس رحیم یار خان مندر حملے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے علاوہ وفاقی اور تینوں صوبائی حکومتیں اقلیتوں کے کوٹے پر بھرتیاں نہیں کر رہی ہیں۔ اس پر ون مین کمیشن کے چیئرمین شعیب سڈل کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک بھر میں اقلیتوں کی 30 ہزار سرکاری نشستیں خالی پڑی ہیں۔
شعیب سڈل نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری نوکریوں کیلئے مختص اقلیتوں کے کوٹے میں 5 فیصد کوٹا مختص ہے تاہم اس میں سکھ، ہندو، مسیحی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ وفاق اور صوبائی چیف سیکرٹریز ون مین کمیشن سے تعاون کریں جبکہ اقلیتوں کی نوکریوں سےمتعلق معاملات پر متعلقہ اتھارٹیز جلد اقدامات کرکے رپورٹ دیں۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ایسا کیا ہو گیا کہ لوگ ایک گھونٹ پانی پر لڑنے لگے ہیں؟ ہمیں بھونگ میں پانی کے نلکے پر جھگڑے کی اطلاع ملی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اخلاقی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔
سرپرست اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل ڈاکٹر رمیش کمار نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ بھونگ میں آج بھی خطرہ موجود ہے جبکہ کرک مندر کی دسمبر سے اب تک تعمیر مکمل نہیں ہو سکی۔
اس پر چیف جسٹس نے خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل کو روسٹرم پر بلا کر پوچھا کہ اب تک کرک مندر مکمل کیوں نہیں ہو سکا؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ کرک مندر کی تعمیر عدالت کے حکم کے مطابق مکمل ہو چکی ہے، ہمارے پاس ہندو کمیونٹی کے اظہار اطمینان کی ویڈیوز موجود ہیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سنتے ہوئے چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کو کرک مندرکی تعمیر سے متعلق رپورٹ دینےکا حکم دے دیا۔ بعد ازاں از خود نوٹس کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔