رحیم یار خان میں مندر چند افراد نے نہیں ایک سوچ نے جلایا

رحیم یار خان میں مندر چند افراد نے نہیں ایک سوچ نے جلایا
پاکستان میں بدھ کے روز ایک واقعہ پیش آیا جس میں رحیم یار خان میں ایک مندر (ہندوؤں کی عبادتگاہ) پر چند 'مشتعل' افراد نے نعرہ تکبیر لگا کر حملہ کیا اور ہندو برادری کے مقدسات کی نہ صرف توہین کی بلکہ آگ لگا کر مندر کو جلا دیا گیا۔ یاد رہے کہ رحیم یار خان میں بھونگ شریف میں جس جگہ یہ مندر موجود ہے اس سے چند منٹ کی مسافت پر ہی تھانہ موجود ہے جہاں سے پولیس افسران بعد از تباہی مشتعل افراد کو گرفتار کرنے نہیں بلکہ موقع سے فرار کروانے آئے۔ لیکن ایک چیز جس پر اب تک کی میڈیا رپورٹس سے لے کر سوشل میڈیا تک کچھ خاص غور نہ کیا گیا وہ یہ کہ اس جگہ پر مندر، مسجد اور امام بارگاہ تقریباً ساتھ ساتھ یا قریب ہی ہیں۔ مشتعل افراد نے مندر پر حملہ آور ہونے سے پہلے اپنی برادری اور سوچ کو واضح طور پر یوں عیاں کیا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں میں پائے جانے والے مسالک کے اختلاف اور نفرت کی بنا پر  امام بارگاہ سے (علم) جو سیدنا عباس علیہ السلام سے منسوب مقدسات میں سے ہے کو بھی نذرِ آتش کیا۔ اس تمام واقعے سے مسلمانوں میں پائے جانے والے گروہوں میں سے کس سوچ کے حامل یا کس مکتبہ فکر کے افراد نے اس معاملے کو سر انجام دیا ہے یہ واضح ہے۔

یوں تو پاکستان میں اقلیتوں کی عبادگاہوں پر حملوں کا رواج اسلام کا نام لے کر اور خود کی مسلمانیت ثابت کرنے کی غرض سے پرانی روایت ہے۔ مگر جہاں نفرت میں شدت ضیا کی مہربانی رہی وہیں پچھلے 5 سالوں میں وہ کینہ اور نفرت اب اشتعال میں بدل کر حملوں کی صورت میں نظر آنا شروع ہو چکی ہے۔ ایک طرف تو مشرف مارشل لا کے بعد جمہوری حکومتوں کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ عوام سیاسی شعور کو سمجھ چکی، ملک میں علمی اور عقلی معیار بہتر ہو گیا ہے، روایات کی بندش سے باہر نکل کر دنیا کے انداز اور سوچ کو اپنایا جا رہا ہے مگر وہیں ہم نے دیکھا کہ وہ جذباتیت کا مادّہ جس کا نتیجہ ہمیشہ تشدد اور نقصان رہا ہے وہ کھل کر سامنے آیا ہے۔

پاکستان جس کو کہا جاتا ہے کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ہے، اس ریاست کی امیج کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دیگر درجنوں مسلم ممالک نے کبھی پاکستان کے اسلامی اقدار کی نہ تو تعریف کی نہ ہی اس کو اپنانے کا کبھی تذکرہ کیا ہے۔ البتہ یہاں سلمان تاثیر سے لے کر بنک مینجر کے قتل تک اور آسیہ کیس سے شگفتہ ایمونیل کیس تک دنیا بھر کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک نے بھی مذمتیں اور تشویش کا اظہار ضرور کیا ہے۔

پاکستان میں اگر صرف ہندوؤں کے مندروں پر حملوں کی بات کی جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے 5 سالوں میں خاص طور پر نشانے تاک کر ان کے مندروں کو تباہ کرنے اور ان کے وجود کو یہاں سے پر تشدد انداز میں ختم کرنے کی خاص سوچ کو طالبانی سوچ کی طرح پروان چڑھایا گیا ہے۔ صرف رواں اور گذشتہ سال ہی کی بات کی جائے تو ابھی حال ہی میں سندھ سے بدین کے علاقے سے عبدالسلام داؤد نامی شخص کو گرفتار کیا گیا جس نے ایک ہندو بچے کو زبردستی بھگوان کو گالیاں دینے اور اللہ اکبر کے نعرے لگوائے۔ 26 جنوری 2020 کو ماتا رانی مندر جو کہ سندھ میں موجود تھا کو تباہ کیا گیا۔ 4 جولائی 2020 کو اسلام آباد میں کرشنا مندر کی تعمیر روک دی گئی جو کہ حکومت کی جانب سے کروائی جا رہی تھی ۔ 17 اگست 2020 کو ہنومان مندر جو کہ لیاری میں موجود تھا اس کو تباہ کیا گیا۔ شری رام دیو مندر کو بدین میں 10 اکتوبر 2020 کو گرا دیا گیا۔ ماتا رانی مندر جو کہ نگر پارکر سندھ میں موجود تھا اس کو 24 اکتوبر کو مسمار کیا گیا۔ تری مندر جو کہ کرک خیبر پختونخوا میں تھا اس کو 30 دسمبر 2020 کو تباہ کیا گیا۔ رواں سال ہندوؤں کے سو سالہ پرانے مندر کو راولپنڈی میں 28 مارچ کو تباہ کیا گیا۔

ہر حملے کے بعد جب سوشل میڈیا کے ذریعے (کیونکہ مین سٹریم میڈیا کو تو ایسی خبر دکھانے کی اجازت تک نہیں ہے) حکومتی اداروں پر دباؤ بڑھایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ عالمی اداروں کی جانب سے مذمت کی جاتی ہے تو حکومت اور عدالت اچانک از خود نوٹس لے کر کارکردگی دکھانے میدان میں کود پڑتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کب تک یہ واقعات ہوتے رہیں گے اور کب تک نوٹس لیے جاتے رہیں گے؟ ایک جانب پاکستان میں یہ کلیم کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد 90 فیصد سے بھی زیادہ ہے تو کیا مسلمانوں کو صرف 10 فیصد سے بھی کم لوگوں سے اتنا خطرہ ہے کہ ان کی عبادگاہوں کو مسمار کیا جائے، ان کو سر عام قتل کیا جائے اور بعدازاں گستاخی یا توہین کا الزام لگا کر ہیرو بن جایا جائے؟

موجودہ واقعے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ تو سنا دیا جس میں گرفتاری اور جرمانے سمیت حکومتی خرچے پر مندر کی تعمیر جاری ہے مگر افراد کی گرفتاری سے کیا سوچ کا خاتمہ ہو سکے گا؟ کیا اقلیتوں اور مخالف نظریات کے افراد کے ساتھ عدم برداشت اور مذہبی لبادہ اوڑھے اسے سنجیدہ بنانے والی سوچ کا خاتمہ ممکن ہے؟ یہ ایک سوال پر قلم رک گیا ہے۔ امید کرتا ہوں ملک کے حالات اس قابل ہوں کہ اس سوال کا جواب بھی میں تحریر کر سکوں۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@